نیا امریکا !

February 07, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

ظفراللہ خان
کنوینیر پارلیمانی ریسرچ گروپ

امریکی انتخابات میں پیسے کے بے دریغ استعمال کے کلچر میں سیاسی نظریات پر انتہائی دولت مندوں کا اثر و رسوخ غالب آرہا ہے،جوبائیڈن ایک ایسی دنیا میں امریکا کے صدر ہیں جو کورونا کیوجہ سے عملاً لاک ڈائون کا شکار ہے،ڈونلڈ ٹرمپ کی سائوتھ ایشیا پالیسی کوئی کارگر ثابت نہیں رہی تھی جبکہ جو بائیڈن کے اس خطبے خصوصاً پاکستان سے تعلق اچھا اور گہرا ہے، صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس پاکستان میں جمہوری تسلسل کے حامی رہیں گے ،جوبائیڈن طویل عرصہ سے امریکی سیاسی افق پر چھائے رہے اور وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں نیز ان کے کئی پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ عملی تعلقات رہے اور ہیں،انہیں پاکستان کا مقدمہ بتانے، سنانے اور سمجھانے میں ہمیں صفر سے سفر کا آغاز نہیں کرنا وہ شاید ہمارے حکمرانوں سے زیادہ پاکستانی حقائق، مشکلات اور رجحانات جانتے ہیں

ظفراللہ خان

ڈاکٹر نوشین وصی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ
بین الاقوامی تعلقات،
کراچی یونی ورسٹی

جو بائیڈن کی ترجیحات میں سب سے پہلے تو گزشتہ دور کے منفی اثرات کو کم کرنا ہے. تا دم تحریرصدر بائیڈن تیس انتظامی حکم نامہ جاری کر چکے ہیں جو ان کی ترجیحات کو واضح کرتے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم کرونا وائرس پر قابو پانا اور اس وبا کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا شامل ہے ۔

امریکا میں جمہوری اقدار کی بحالی ، نسل پرستی کا خاتمہ ، امیگریشن سے متعلق ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کو بدلنا، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر چلنا اور امریکا کے عالمی رہنما کے کردار کو بر قرار رکھنا بائیدن انتظامیہ کی ترجیحا ت ہوں گی،چین کی عالمی سیاست میں بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا, مشرق و سطیٰ میں امریکی مفاد کا تحفظ بائیدن کا واضح اور اولین ہدف ہے،بائیڈن کی نئی کا بینہ میں ہندوستان نژاد20 افراد شامل ہیں جو امریکا کی جنوبی ایشیا کی پالیسی پر اثر انداز ہوں گے

ڈاکٹر نوشین وصی

فیض رحمٰن، واشنگٹن
ماہر عالمی امور/ سابق سربراہ،
اردو سروس، وائس آف امریکا

جس جمہوریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا اور دنیا پر مسلط کیا اسی جمہوری نظام نے چار سال میں اسے چلتا بھی کردیا ۔ جمہوریت غالب رہی،بائیڈن کا سب سے بڑا مقصد اور چیلنج یہ ہے کہ انتہاپسندوں سے اپنے آپ کو ایک قانونی اور آئینی منتخب صدر تسلیم کروائیں، تاریخ میں پہلی بار بائیڈن نے وائٹ ہاوٗس میں انسانی حقوق، جمہوریت، اور عالمی صحت کا ایک الگ دفتر قائم کیا ہے۔ اس نئے دفتر اور بائیڈن اور ہارث کے کشمیر کی صورتحال پر واضح بیانات کے باعث اس حوالے سے بھارت پر دباوٗ بڑھے گا۔ وہ کھلی چھٹی جو ٹرمپ نے مودی کو دے رکھی تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ چین بدستور ایک مخالف ملک سمجھا جائے گا لیکن پاکستان کے سی پیک منصوبوں پر معاملات آگے بڑھائیں جا سکتے ہیں بشرطیکہ پاکستانی بھی اپنے کارڈز صحیح کھیلیں

مشرف خان
ڈائریکٹر، امریکن مسلم پروگریسو کاکس،
میامی، فلوریڈا

فیض رحمٰن

جوبائیڈن انتظامیہ کا سب سے بڑا داخلی چیلنج کورونا وائرس اور اُس سے پیدا شُدا صورتِ حال سے امریکیوں کو باہر نکالنا ہے جو کہ ایک وقت طلب بہت مہنگا نسخہ اور منصوبہ ہے۔ نئی حکومت پہلے ہی دن سے امریکی شہریوں کا حکومت پر اعتماد کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کی بدحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے،جوبائیڈن انتظامیہ کے آنے سے دنیا بھر میں یقیناً بڑی تبدیلیاں رونُما ہوں گی جس میں ٹرمپ انتظامیہ کے بین الاقوامی دنیا سے ختم کئے گئےاہم معاہدوں کی بحالی اور بیرونی دنیا سے تعلق کو بحال کرنا ایک لازمی جُزو ہوگا

مشرف خان

جو بائیڈن امریکا کے صدر بن چکے ہیں اور اپنے تبدیلی کے منشور کے تحت عوام سے کئے گئے وعدوں پر عمل بھی شروع کر دیا ہے، انہیں ایک مسخ امریکا ملا ہے جس کی شناخت بحال کرنا ان کے لئے سب سے بڑاچیلنج ہے، ایک جمہوری لبرل امریکا کی واپسی

ان کی بڑی کامیابی ہو گی، داخلہ اور خارجہ امور پر ان کی پوری توجہ مبذول دکھائی دے رہی ہے، اس میں وہ کہاں تک کیسے کامیاب ہوں گے، یہ جاننے کے لئے تبدیلیی امریکا میں ۔۔۔۔۔ کے موضوع پر جنگ فورم کاانعقاد کیا گیا، پارلیمانی ریسرچ گروپ کے کنوینر ظفر اللہ خان، کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی، واشنگٹن میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اور وائس آف امریکا کی اردو سروس کے سابق سربراہ فیض رحمنٰ اور امریکا میں ہی مقیم سینئر صحافی اور امریکن مسلم پروگریسیو کاکس، فلوریڈا کے ڈائریکٹر مشرف خان نے اظہارِ خیال کیا ہے, رپورٹ پیش خدمت ہے۔

ظفراللہ خان

کنوینرپارلیمانی ریسرچ گروپ

21؍ ویں صدی کے 21؍ ویں سال میں جو مناظر ہمیں دنیا کی قدیم ، مضبوط اور موثر جمہوریت … امریکا میں دیکھنے کو ملے وہ ڈھیروں سوالات کو جنم دے گئے۔ کیپٹل ہل پر یلغار کی تصاویر برسوں جمہوریت کے مستقبل کے حو الے سے علامت کے طور پر استعمال ہوں گی۔ 2020ء کے امریکی صدارتی انتخاب نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سماجی اور سیاسی طور پر افقی اور عمودی گہری تقسیم کو نمایاں کیا۔ مبصرین ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016ء کی جیت کوجذباتی سیاست کا سطحی ابھار کہا تھا اور امریکی جمہوریت کے اداروں اور نظام نے انہیں چار سالہ ٹرم میں بٹھاہی لیا لیکن 2020ء میں تو یہ سوچا سمجھا چوائس تھا اور انہوںنے ریکارڈ ووٹ لئے۔ نیز سوالات امریکی انتخابی نظام پر بھی اٹھے اور کہا گیا کہ کیا برسوں پرانا طریق کار خصوصاً پاپولر ووٹ کی بجائے الیکٹورل کالج پرانحصار آج بھی موثر ہے۔

نیز کیا الیکٹرول کالج کے ذ ریعہ جیتنے والے کی تصدیق اور امریکی سینیٹ میں نتائج کی دوسری، تصدیق آج بھی قابل عمل ہے؟ اور سب سے بڑھ کر امریکی انتخابات میں پیسے کے بے دریغ استعمال کے کلچر میں سیاسی نظریات پر انتہائی دولت مندوں کا اثر و رسوخ غالب آرہا ہے۔ اس بات کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے امریکی نظام کی تفہیم لازمی ہے۔ امریکا میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیتنے کی مشینری کہا جاتا ہے اور باوجوداس کے کہ امریکا میں کئی سطحوں پر الیکشن ہوتے ہیں وہاں سیاسی جماعتیں روایتی انداز میں منظم کام نہیں کرتیں بلکہ مہم کے مینجروں اورچندہ اکٹھا کرنے والوں کا کردا اہم رہتاہے۔ ری پبلکن پارٹی کے کئی پلیٹ فارم ہیں مثلاً انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ اسی طرح ڈیموکریٹس کا بھی ایک تھنک ٹینک نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے عالمی سطح پر جمہوریت کی نمو اور فروغ کے لیے زیادہ کام کرتے ہیں۔ شاید وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں جمہوریت کو لاحق بیماریوں کا بھی کوئی علاج سوچیں۔ اس کے علاوہ دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کی کونسلیں ہیں لیکن لگتا ہے کہ رہنمائوں کی نئی کھیپ سامنے نہیں آرہی۔ اسی لئے امریکا کے 46؍ ویں صدر جوبائیڈن امریکی تاریخ کے بزرگ ترین صدر ہیں جبکہ ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر بھی اچھی خاصی ہے۔ یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا امریکی سیاست نوجوانوںمیں اپنی کشش کھورہی ہے۔ جہاں تک ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کی نظریاتی پہچان کا تعلق ہے تو ری پبلکنز کی حامی ریاستوں کو سرخ اور ڈیموکریٹس کی حامی ریاستوں کو نیلے رنگ سے پہچانا جاتا ہے حالانکہ عالمی سطح پر سرخ رنگ انقلاب کی علامت ہے لیکن امریکا میں یہ قدامت پسند (کنزرویٹو)نظریات کو ظاہر کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ری پبلکنز سفید فام لوگوں کا پلیٹ فارم ہے ور اس کا تاریخی تناظر بھی ہے جبکہ ڈیموکریٹس کثیر نسلی پلیٹ فارم ہے۔

اسی پارٹی کو پہلا سیاہ فام صدر باراک اوبامہ اور اس بار پہلی ایشیائی نژاد خاتون نائب صدر کملا ہیرس کو جتوانے کا اعزاز حاصل ہے۔ گلوبلائزیشن کی لہر کے بعد ری پبلکنز نے ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بھی لگایا۔ ری پبلکنز کو امریکا کے آئل سیکٹر اور ملٹر… انڈسٹریل کمپلیکس کا حامی اور حصہ بھی سمجھا جاتا ہے اور ڈیموکریٹس کی پہچان ان کے تارکین وطن کے حوالے سے کھلے دل اور سماجی ترقی پر زور بشمول جمہوریت کی ترویج کے حو الے سے ہے۔ ناقدین کے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو ’’ریاست ہائے منقسم امریکا‘‘ کہا تو وہ اس تقسیم کے پس منظر میں تھا۔

اب جوبائیڈن کے کاندھوں پراچھا خاصا بوجھ ہے۔ کثیر قطبی عالمی منظر نامہ اور تجارتی سرد جنگ کے زمانے میں کیا جوبائیڈن امریکی دھاک برقرار رکھ سکیں گے۔ کیا وہ داخلی اعتبار سےمنقسم سماجی کی نفرسوں کی فصل تلف کرکے امریکا کو جوڑ سکیں گے؟ کورونا کیو جہ سے گلوبلائزیشن کا عمل اچھا خاصا تھم چکا ہے اور اس کی جگہ ہمیں ویکسین نیشنلزم نظرآتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی کانگریس ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک بھی ٹرائل کے لیے امریکی سینیٹ میں بھیج چکی ہے۔

اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی کیریئر پر فل اسٹاپ لگادے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید ہمیں امریکا میں بھی ایک ایسا سیاست داں نظر آئے جو اپنا ووٹ بینک بچا کر 2024ء میں نئی سیاسی ہلچل پیدا کرے۔ عالمی حوالے سے جوبائیڈن ایک ایسی دنیا میں امریکا کے صدر ہیں جو کورونا کیوجہ سے عملاً لاک ڈائون کا شکار ہے۔ یورپ میں معیشت اور زندگی گریٹ ڈپریشن کے زمانے کی یاد دہانی کراتی نظرا ٓتی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ عرب بہارکے فلسفہ کے برعکس اسرائیل کے حو الے سے عرب اعتبار کا سفر شروع کرگئے۔ ہمارے پڑوس میں افغان طالبان کےساتھ گفتگو اور ڈائیلاگ کا آغاز کرگئے۔ کیا جوبائیڈن کوئی مختلف راستہ اپنائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ امریکا اور چین کے مابین تجارتی سرد جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ایک اہم پہلو رہے گا۔

اگر ہم خالصتاً پاکستانی تناظر میں دیکھیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سائوتھ ایشیا پالیسی کوئی کارگر ثابت نہیں رہی تھی جبکہ جو بائیڈن کے اس خطبے خصوصاً پاکستان سے تعلق اچھا اور گہرا ہے۔ پاکستانی جمہوریت کو جو پریمیم کیری لوگر بل کی شکل میں ملا تھا اس کے اولین معماروں میں جو بائیڈن بھی شامل تھے۔ یہ بات تو طے ہے کہ صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس پاکستان میں جمہوری تسلسل کے حامی رہیں گے لیکن کیا پاکستان… امریکا تعلقات کا کوئی نیا اچھا زمانہ آجائے گا۔ انتظار طلب سوال ہے۔ اس بارے میں دو آراء نہیں کہ ہر ملک کی خارجہ حکمت عملی کا بنیادی پہلو اس ملک کے اپنے معاملات ہوتے ہیں۔

امریکا دنیا میں، جنوبی ایشیا میں اور پاکستان میں وہی کھ کرے گا جواس کے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔ پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ کچھ بھی نہیں اپنے مفادات کا تحفظ صدر جوبائیڈن طویل عرصہ سے امریکی سیاسی افق پر چھائے رہے اور وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں نیز ان کے کئی پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ عملی تعلقات رہے اور ہیں… کیا ہم اس گڈول (Wood will) کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ میرا جواب ہوگا جی ہاں کرسکتے ہیں لیکن اس کا راستہ امریکا کے ساتھ اپن قومی مفاد میں ادارہ جاتی ڈائیلاگ ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان چین کا بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ ہے۔ چین نے پائلٹ پراجیکٹ کے لئے ہمارا انتخاب کیا مگر ہم شاید اس سے بھی پورا انصاف نہیں کرپارہے۔ چین سے دوستی اپنی جگہ لیکن میری رائے میں ایک وقت تھا کہ ہمیں انتخاب کرنا تھا کہ خجراب سے گوادر تک یا پھر واہگہ سے طورخم تک اب وہ وقت تو گزر چکا ہم کسی ایک کا بھی اچھے انداز میں انتخاب نہ کرسکے۔

شاید ہماری اپنی سیاسی اور معاشی مجبوریاں تھیں۔ مجھے اس بات کا بھی ادراک ہے کہ آج کی عالمی سیاست میں آپ سب کے محبوب نہیں ہوسکتے لیکن پاکستان نے امریکا ور چین کے تعلقات میں 1970ء کی دہائی میں پل کا کردارادا کیا تھا کیا آج پاکستان کو نیا اور اچھوتا کردارادا کرسکتا ہے؟ ہمارے دفتر خارجہ اور اس سے بڑھ کر ہماری سیاسی قیادت کو دور اندیش رویہ اپنانا ہوگا۔ جہاں تک امریکی صدر جوبائیڈن کا تعلق ہے نہ انہیں پاکستان کا مقدمہ بتانے، سنانے اور سمجھانے میں ہمیں صفر سے سفر کا آغاز نہیں کرنا وہ شاید ہمارے حکمرانوں سے زیادہ پاکستانی حقائق، مشکلات اور رجحانات جانتے ہیں۔ ہمیں صرف انہیں اعتماد دلانا ہوگا کہ اب ہم سنجیدہ ہیں اور ہم کثیر قطبی بنتی دنیا میں واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو شاید ہمیں کچھ کامیابی حاصل ہوجائے۔

تاریخی اعتبار سے ڈیموکریٹس جمہوریت اور انسانی حقوق کے قائل رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے تو امریکا کی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی اختیار کرلی تھی صدر جوبائیڈن نے پہلے مرحلہ پر ماحولیاتی معاہدہ کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے امید ہے وہ عالمی انسانی حقوق کے ایجنڈا کی طرف بھی آئیں گے۔ المختصر یہ سنو آسان نہیں۔ امیدوں کا بوجھ زیادہ ہے اور توقعات کا راستہ بھی طویل ہے۔ ہماری کامیابی یہ ہوگی کہ ہم اپنے لئے کوئی بہتر راستہ تلاش کرلیں۔ آخر میں میں یہی کہوں گا کہ امریکا نے تو اپنا جمہوری راستہ ہزار آزمائشوں کے باوجود نہیں چھوڑا کیا ہم اپنے راستے پرکچھ گل و گلزار کا سامان پیدا کرسکتے ہیں؟ میں یہ بات بھی کہوںگا کہ جمہوریت ہزار آزمائش کے باوجود آج بھی واحد راستہ ہے۔ صدر جوبائیڈن کو عالمی سطح پر جمہویرت کے فروغ اور ترویج کے لیے اچھا خاصا کام کرنا ہوگا۔

میں ورلڈ موومنٹ فار ڈیموکریسی کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں جنوبی ایشیا کی نمائندگی کرتا ہوں میری آرزو ہے کہ ہم آج جمہوریت کو درپیش چیلنجز کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں اور آنے والی نسلوں کو ان کی رائے کی بنیاد پر کوئی اچھا نظام دیں اور یہ راستہ میری رائے میں مزید بہتر جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نہیں۔

ڈاکٹر نوشین وصی

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ بین الاقوامی تعلقات، کراچی یونی ورسٹی

بائیڈن کے صدارتی عہدہ کا حلف اٹھانے سے بالاخر اس غیر یقینی صورتِ حال کا خاتمہ ہوا جس سے امریکی سیاست بالخصوص اور دنیا بالعموم دوچار تھی ۔ صدر ٹرمپ کا چار سالہ دورِ اقتدار بلاشبہ امریکی تاریخ کا نہایت ہی مختلف دور رہا اور اس کا اختتام بھی کسی ڈرامائی انداز سے کم نہ تھا۔ اس دور نے نہ صرف امریکا کی عالمی سا کھ کو بری طرح متاثر کیا بلکہ امریکا کی اندرونی سیاست پر بھی بہت منفی اثرات مرتب کئے ۔ امریکی جمہوریت اور جمہوری اقدار اس دور میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور دنیا نے امریکا میں وہ مناظر دیکھے جو عموماً تیسری دنیا کی نیم جمہوری ڈھانچوں میں دیکھے جاتے ہیں ۔ کیپیٹل ہل پر حملہ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت کے حامیوں کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ دن تھا۔ شکر ہے کہ حالات وہاں سے مزید خراب نہیں ہوئے اور 20 جنوری کو جو بائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔

جو بائیڈن کی ترجیحات میں سب سے پہلے تو گزشتہ دور کے منفی اثرات کو کم کرنا ہے. تا دم تحریرصدر بائیڈن تیس انتظامی حکم نامہ جاری کر چکے ہیں جو ان کی ترجیحات کو واضح کرتے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم کرونا وائرس پر قابو پانا اور اس وبا کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا شامل ہے ۔الیکشن مہم کے وعد وں کے مطابق بائیدن صاحب نے پیرس ماحولیاتی معاہدہ میں بھی دوبارہ شرکت کا فیصہ کیا ہے ۔ امریکا میں جمہوری اقدار کی بحالی ، نسل پرستی کا خاتمہ ، امیگریشن سے متعلق ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کو بدلنا، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر چلنا اور امریکا کے عالمی رہنما کے کردار کو بر قرار رکھنا بائیدن انتظامیہ کی ترجیحات ہوں گی۔

بائیدن کی اہم پالیسی د نیا میں معزب کے امیج کے از سرِ نو تنظیم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا عالمی رہنمائی میں کس طرح برتری رکھنا چاہتا ہے ۔ چین کی عالمی سیاست میں بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا, مشرق و سطیٰ میں امریکی مفاد کا تحفظ بائیدن کا واضح اور اولین ہدف ہے اور اس میں ا مر یکہ مغرب کے سا تھ مشترکہ طور پر کا م کر کے ہی کامیاب ہو سکتا ہے ۔ تجزیاتی اعتبار سے یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا واقعی بائیدن دور کی پالیسیاں اور ترجیحات ٹرمپ کے زمانے سے مختلف ہوں گی ؟ اس کو داخلی اور خارجی اعتبار سے مختلف طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔

داخلی میدان میں تو ہمیں واضح تبدیلیاں ہوتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔ مثال کے طور پر جمہوری ا قد ا ر اور ا دارو ں کے تحفظ کے حوالے سے ، بیروزگاری کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو استحکام دینے کے حوالے سے ، کرونا وبا کے خاتمہ کے حوالے سے امکان یہ ہی ہے کہ بائیڈن دور بہتر ثابت ہوگا۔ تاہم نسل پرستی کے حوالے سے جس طرح امریکی قوم میں تقسیم پائی جاتی ہے بائیڈن دور کو کافی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

خارجی اعتبار سے بڑی تبدیلی صرف بیانیہ کی ہوگی ۔ چین سے اگر چہ ٹرمپ دور کی طرح بالواسطہ مخاصمت بائیڈن انتظامیہ کی ترجیح نہیں لیکن معاشی پالیسی بہت زیادہ تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی ۔ اسی طرح مشرق وسطی میں امریکا کی پالیسی اسرائیل اور امریکی مفاد کا تحفظ ہی ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ میں گیارہ اہم عہدوں پر یہودی افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس کا لازمی اثر خطے سے متعلق فیصلوں پر ہوگا ۔ ایران کے معاملہ میں اگر چہ بائیڈن نے نرمی کا اشارہ کیا ہے مثال کے طور پر جو ہری معاہدہ پر پھر سے کام کرنا اور ایران کے ساتھ بات چیت کرنا مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی ایران مخالف پالیسیوں نے ، ایران کو خطے میں مضبوط کیا ہے ۔

ایران نے غیر ریا ستی ا دا روں کو اپنے مقا صد کے لیے استعما ل کیا ہے اور خطے میں اس کا اثرورسوخ بڑ ھا. ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے یہ ایران کو مزاکرات کے د ائر ےمیں لایا جائے جس سے امریکا کہ مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ البتہ یو رپ کے ساتھ امر یکہ کے تعلقا ت بہتر ہو ں گے۔ امر یکہ چا ہے گا کے دوسر ی عا لمی جنگ کے بعد جس Rule based International System پر امریکا اور یو رپی طا قتوں نے کا م کیا تھا چین کو بھی اسی پر قا ئل کیا جائے. بین الا قوامی اد اروں کے ساتھ تعلقات کی بحا لی کی کلیدی وجہ بھی یے ہی نظر آتی ہے.

جہاں تک بائیڈن کے زمانے میں پاک امریکا تعلقات کی بات ہے اس میں بڑی حد تک بہتری کا امکان ہے ۔ اور اس کی بہت ٹھوس وجوہات ہیں ۔ اول تو یہ کہ جو بائیڈن پاکستان کی سیاست کو بہتر طور سے سمجھتے ہیں ۔ وہ 2008 کے الیکشن میں مبصر کی حیثیت سے یہاں موجود تھے ۔ پاکستان کی فوجی قیادت کے ساتھ خطے کی سلامتی سے متعلق امور پر انھوں نے ساتھ کام کیا ہے اور مختلف جمہوری حکومتوں کے ساتھ ان کے رابطے ر ہیں ہیں ۔ خصوصاً پاکستان ۔ امریکا تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے ان کی کوششو ں پر پاکستان نے انہیں تمغہء ہلالِ پاکستان سے نوازا تھا۔

اس وقت پاکستان چاہتا ہے کہ سلامتی اور افغانستان سے متعلق امور کے علاوہ بھی پاکستان ۔ امریکا تعلقات بہتر ہوں اور وسیع بنیا دوں پر استو ار ہوں ۔ بائیڈن جس وقت نا ئب صدر تھے تو پاکستان اور امریکا کے مابین اسٹریٹجک پارٹنر شپ قائم کرنے پر بات چیت کی گئی تھی اور اس ضمن میں پانچ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے ۔ اس وقت یہ بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی لیکن اب اس پارٹنرشپ کو قائم کرنے اور مضبوط بنانے پر بات ہوسکتی ہے ۔ اس وقت سلامتی کے علاوہ تجارت ، صحت ، تعلیم اور علاقائی سلا متی کے امور پر تعاون کی بات کی گئی تھی۔ آج ایسے مواقع موجود ہیں کہ اس حوالے سے امریکا پا کستان تعاون کرسکتے ہیں ۔

اب دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی فضا موجود ہے . چین اور پاکستان کے قر یبی تعلقات ، افغانستان کے امن میں پاکستان کا کلیدی کردار ، اور مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی صورتحال پاک امریکا بہتر تعلقات کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور پاکستان اس صورتحال کو بہتر طور پر اپنے ملک کی بہتر ی اور فا ئد ے کے لیے استعمال کرسکتا ہے ۔ تاہم جیسا کہ کشمیر کی صورتحال پر بائیڈن اور کمالا حارث نے تحفظات کا اظہار کیا اس پر پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیں کہ امریکا کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر کسی قسم کا دباؤڈالے گا۔ بائیڈن کی نئی کا بینہ میں ہندوستان نژاد20 افراد شامل ہیں جو امریکا کی جنوبی ایشیا کی پالیسی پر اثر انداز ہوں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے کارڈ بہتر طور پر استعمال کر ے اور اپنی ترجیح امریکا کہ ساتھ سلامتی اور تجارتی امور کو بہتر بنانے میں دے۔

فیض رحمن، واشگٹن ڈی سی

سابق سربراہ اردو سروس، وائس آف امریکا/سیاسی تجزیہ کار

سابق صدر ٹرمپ کا کا غیر معمولی دور چار سال بعد انتہائی ڈرامائی انداز سے ختم ہوا اور کئی اعتبار سے ایک نیا تاریخی دور صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہارث کے حلف اٹھانے سے شروع ہوا ۔ بائیڈن کے کئی اقدمات تاریخی ہیں۔ ایک سیاہ فام، جنوبی ایشیائی خاتون نائب صدر کے ساتھ ساتھ، پہلی بار ایک سیاہ فام وزیر دفاع جیسی کئی ایسی شخصیات بائیڈن انتظامیہ کا حصہ ہیں جن کا آج سے پہلے سوچنا بھی ناممکن تھا۔

حلف اٹھانے کے فورا بعد اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے یہ تاریخی الفاظ کہے کہ’’ جمہوریت غالب آگئی‘‘ ۔ اس قسم کے تاریخی الفاظ محترمہ بنظیر بھٹو شہید نے بھی کہے تھے کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے"۔ امریکا دنیا کی پہلی جمہوریت ہے، دو سو بتیس برس طویل جمہوری روایات کی پابندی ، آئین کی پاسداری ، تعلیم یافتہ آبادی، دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود پچھلے ہفتے کچھ حقیقی لمحات ایسے تھے کہ محسوس ہورہا تھا کہ امریکی جمہوریت جیسا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں، اب اس کا خاتمہ قریب ہے!

ایسا سب کچھ کیسے ہوگیا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: قیادت۔

اس میں کو ئی شک نہیں کہ کئی دہائیوں سے امریکی معاشی ناہمواری بڑھتی جارہی ہے ۔ ایشیا اور یورپ سے تارکین وطن امریکا آکر اعلیٰ آمدنی والی نوکریوں کو لے رہے ہیں، امریکی خصوصاً سفید فام کم پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنے طرز زندگی اور اپنی خوشحالی کے بار ے میں بہت فکرمند ہیں۔ اس خوف کے عالم میں وہ کئی طرح کے سازشی نظریات کا شکار ہوتے رہے۔ لیکن یہ جذبات اور خیالات بڑی حد تک زیر زمین اور کچھ ویب سائٹس تک ہی محدود تھے ۔ لیکن ۲۰۱۵ میں ٹرمپ نے جب اپنی انتخابی مہم کا اعلان کیا اور قومی اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے ایسے جملے کہے کہ جنہیں امریکی معاشرے میں سوچنا بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا، تو بس سمجھیے کہ سب بند کھل گئے ، اپنے معاشی مستقبل سے خائف، اور اپنی عددی اکثریت کھوئے جانے کے خطرے سے خوف زدہ کئی سفید فام نسل پرست گروہ کھل کر سامنے آگئے اور ٹرمپ کے چار سالہ دور صدارت میں اتنی طاقت اور مقبولیت حاصل کرلی کہ جس کی انتہائی شکل ہم نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت دہشت گرد حملے کی صورت میں دیکھی۔ اس کے پیچھے کیو اینان نامی ایک سازشی نظریاتی تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔

ٹرمپ نے ان لوگوں کو آواز عطا کردی، سازشی نظریات کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے بڑھاوا دیا۔ انتہائی اعلیٰ سطح سے قیادت اور وسائل فراہم کردیئے۔ یہ حملہ کرنے والے ہزاروں افراد جن میں عام مزدور اور کسان سے لے کر انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال خواتین، مرد، بوڑھے اور نوجوان بھی شامل تھے پورے تہہ دل سے یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس حملے سے انتقال اقتدار کے جمہوری عمل کو روک کر ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید چار سال کے لیے صدر بناسکتے تھے۔ اس حملے کو متفقہ طور پر اندرونی دہشت گرد حملہ کہا گیا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقریباً سب ہی ری پبلیکن قانون ساز حملے سے پہلے اور کچھ نے اس کے بعد بھی ان اندرونی دہشت گردوں سے ہمدردی کا مظاہرہ کیا ۔ ہم نے یہ جملے پاکستان میں سنے تھے کہ "قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے" بعینہ یہ جملے ٹرمپ کے لیے اس حملے سے پہلے، حملے کے دوران اور بعد ازاں بھی کہے گئے۔ کچھ انتہا پسندوں نے تو اپنے بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی اگر انہوں نے انقلاب کا ساتھ نہیں دیا۔

لیکن جس جمہوریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا اور دنیا پر مسلط کیا اسی جمہوری نظام نے چار سال میں اسے چلتا بھی کردیا ۔ جمہوریت غالب رہی! جائز و ناجائز طریقے سے لوگوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، غنڈہ گردی کی، توڑ پھوڑ کی، مارا پیٹی ہوئی، لیکن اسی جمہوری نظام اور آئین کے تحت طاقت استعمال کی گئ، "دہشت گرد" پیچھے ہٹ گئے۔ ٹرمپ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، جن لوگوں کو کچھ دیر پہلے وہ اکسا کر امریکی جمہوریت کے مرکز کیپیٹل ہل پر حملے کی ترغیب دے رہے تھے، انہیں انہی لوگوں کی مذمت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جمہوریت بے قابو ہوگئی تھی، جمہوری اقدار کی پاسداری اور اس احساس نے کہ آئین اور جمہوریت کے بغیر امریکا ایک ملک نہیں رہے گا دوبارہ جمہوریت کو پٹڑی پر ڈال دیا گیا ۔ جمہوریت غالب آگئی۔

جو بائیڈن کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ پچھتر ملین افراد نے ٹرمپ کو ووٹ دیے۔ ان میں ایک بڑا حصہ شدت پسندوں کا ہے جو کہ ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔ کانگریس میں ان لوگوں کو اب بھی حمایت حاصل ہے۔ ایک انتہا پسند ری پبلیکن کانگریس وومن نے صدر بائیڈن کے خلاف مواخذے کے آرٹیکل داخل کردیئے ہیں ۔ یہ عمل ہے تو بے سود لیکن اس سے آپ کو آئندہ آنے والے ایام اور بائیڈن کی مشکلات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بائیڈن کا سب سے بڑا مقصد اور چیلنج یہ ہے کہ انتہاپسندوں سے اپنے آپ کو ایک قانونی اور آئینی منتخب صدر تسلیم کروائیں، اپنے اقداما ت سے اور پالیسی سے ۔ اور ٹرمپ نے بین الاقوامی طور پر امریکا کی حیثیت کو جس بری طرح سے مجروح کیا تھا اسکو بحال کریں اور اقوام عالم کو یہ پیغام دیں کہ اب امریکی خارجہ پالیسی وسیع تر عالمی مفاد اور نظام کے حق میں ہوں گی۔

ایک اور بہت بڑا درد سر بائیڈن کے لیے ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے کامیاب مواخذے کے بعد سینٹ میں ٹرمپ کے جرائم کو ثابت کرنے لیے مقدمہ ہے جو اگلے مہینے نو تاریخ سے شروع ہوگا ۔سینٹ میں اس مقدمے کے تقریبا سب ہی ری پبلکین مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے قوم مزید تقسیم ہوگی۔ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی بضد ہے کہ یہ مقدمہ چلانا ضروری ہے کیونکہ ٹرمپ کے جرائم بڑے سنگین ہیں اور آئندہ آنے والے صدور کے لیے یہ ایک سبق ہوگا۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ٹرمپ زندگی بھر کوئی انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کی مخالفت کے باعث اس مقدمے میں ٹرمپ کا مجرم ثابت ہونا ذرا مشکل نظر آتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں کئی مبصرین کا خیال ہے بائیڈن انتظامیہ کے آنے سے اس خطے میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مجھے اس سے اختلاف ہے ۔ ٹرمپ اور بائیڈن کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق اور ڈیموکریٹک پارٹی کے یکسر مختلف پلیٹ فارم سے یہ بات یقینی ہے کہ اگر فوری طور پر نہیں تو آہستہ آہستہ کئی پالیسی تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ افغانستان میں امن معاہدے کا عمل سست ہو جائے گا۔ نئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلوین نے تیسرے دن ہی اپنے افغان ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ طالبان سے امن معاہدے کا دوبارہ جائزہ لے گی اور طالبان کو ان کے وعدوں پر پرکھے گی۔

اس صورتحال کا پاکستان پر اور دوسرے ممالک پر بھی اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ تاریخ میں پہلی بار بائیڈن نے وائٹ ہاوٗس میں انسانی حقوق، جمہوریت، اور عالمی صحت کا ایک الگ دفتر قائم کیا ہے۔ اس نئے دفتر اور بائیڈن اور ہارث کے کشمیر کی صورتحال پر واضح بیانات کے باعث اس حوالے سے بھارت پر دباوٗ بڑھے گا۔ وہ کھلی چھٹی جو ٹرمپ نے مودی کو دے رکھی تھی وہ ختم ہوجائے گی۔ چین بدستور ایک مخالف ملک سمجھا جائے گا لیکن پاکستان کے سی پیک منصوبوں پر معاملات آگے بڑھائیں جا سکتے ہیں بشرطیکہ پاکستانی بھی اپنے کارڈز صحیح کھیلیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کا مطلب مغربی دنیا سے تعلقات کی منسوخی نہیں ہونی چاہیے۔

ہمارے خطے میں یہ تاثر عام ہے کہ چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے امریکا کا بھارت کی جانب زیادہ جھکاؤ ہے اور رہے گا۔ یہ بات تو ساٹھ کی دہائی میں بھی سمجھی جاتی تھی ۔ آج چین ایک مسلمہ عالمی طاقت ہے جسکا اثر ہر خطے میں قائم ہو چکا ہے ۔ چین کو روکنے کے لیے امریکا دنیا کے ہر ملک سے مخاصمت برداشت نہیں کرسکتا۔ اس معاملے پر بائیڈن انتظامیہ کو عملیت اور حقیقت پسندی دکھانا ہوگی ۔ اس کا مظاہرہ وہ اس بات کے اعلان سے بھی کرچکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری معاہدے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس پر بعض میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ایران سے بات چیت بھی شروع ہو چکی ہے ۔ اس اقدام کا بھی پاکستان کو تجارتی فائدہ ہوگا۔ پاکستانی عوام کو بائیڈن انتظامیہ کے انسانی حقوق، جمہوریت اور صحت عامہ کے پروگرامز سے بھی فائدہ پہنچے گا۔

یہ درست ہے کہ امریکی پالیسیاں اس خطے میں امریکا کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوں گی ۔ لیکن نیا امریکا اپنے مفادات کا تحفظ اپنے پارٹنرز کے مفادات کو نظر انداز کرکے نہیں کرسکتا۔ یہ عمل دو طرفہ ہوگا۔ پاکستان کے لئے بائیڈن انتظامیہ کی شکل میں بے پناہ مواقع حاصل ہوئے ہیں ، ان مواقع کو کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کا زیادہ دارومدار پاکستان کی اپنی پالیسیوں پر ہگا۔ اس وقت پاکستان کو واشنگٹن میں اچھے دوستوں کی ضرورت ہے ۔

مشرف خان

ڈائریکٹر، امریکن مسلم پروگریسو کاکس، میامی، فلوریڈا

نئی امریکی انتظامیہ کے لئے سب سے پہلا اور مُشکل کام دنیا میں امریکا کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ھے۔

جوبائیڈن انتظامیہ کا سب سے بڑا داخلی چیلنج کورونا وائرس اور اُس سے پیدا شُدا صورتِ حال سے امریکیوں کو باہر نکالنا ہے جو کہ ایک وقت طلب بہت مہنگا نسخہ اور منصوبہ ہے۔ نئی حکومت پہلے ہی دن سے امریکی شہریوں کا حکومت پر اعتماد کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کی بدحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔

جوبائیڈن انتظامیہ کے آنے سے دنیا بھر میں یقیناً بڑی تبدیلیاں رونُما ہوں گی جس میں ٹرمپ انتظامیہ کے بین الاقوامی دنیا سے ختم کئے گئےاہم معاہدوں کی بحالی اور بیرونی دنیا سے تعلق کو بحال کرنا ایک لازمی جُزو ہوگا۔

اگر امریکا کی اس نئی حکومت کا بین الاقوامی دنیا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات مکمل واضع ہے کہ اب دنیا تبدیل ہونےٕ جا رہی ہے. سب سے پہلے دو پڑوسی ممالک کینیڈا سے مزید سردمہری اور میکسیکو سے حالات میں بہتری کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں جب کہ ساؤتھ امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ مزید نرمی اور مالی معاونت کے اشارے بھی نظر آتے ہیں۔

یورپ میں ناٹو اتحادیوں سے روابط استوار کرنے کے ساتھ فنڈنگ کی بحالی بھی ہوتی نظر آرہی ہے۔ روس سے تعلقات کا دارومدار امریکی سرکاری اداروں کی رپوٹس پر منحصر ہوگا۔ چین سے متعلق امریکی پالیسی ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس دوستانہ اور باہمی تعاون کی بنیاد پر ہوگی۔ چینی برآمدات کے اضافہ سے خطے میں کاروباری ریل پیل میں اضافہ ہوگا۔ حصص کی خریدو فروخت میں تیزی سے باعث اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں اضافہ ہونے کا امکان ھے۔

جوبائیڈن انتظامیہ کی آمد پر امریکا کی اقلیتوں میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوں گی جس سےاقلیتوں اور درمیانے درجہ کے لوگوں کی بےچینی میں کمی اور احساسِ محرومی میں بہتری آئے گی۔ ٹرمپ حکومت کے مسلمانوں سے نفرت آمیز رویہ کے باعث جو مسلمان تنظیمیں ایک چتھری تلے جمع ہونا شروع ہوئی تھیں اب اور مضبوط ہوں گی اور اپنا سیاسی لائحہ عمل مشترکہ طور پر طے کریں گی۔ Black Live Matter کے نعرے کی مقبولیت کے بعد اب امریکی مسلمان Muslim Vote Matter نامی تنظیم کے بینر تلے جمع ہورہے ہیں۔ یہ تنظیم مسلمانوں کو بلا پارٹی تفریق ووٹرز رجسٹریشن کی ترغیب دے رہی ہے ۔ جس سے آئندہ انتخابات میں سوئنگ اسٹیٹس پر بہت واضح اثر پڑ سکتا ھے۔

خلیج فارس میں ایران سے معاملات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے تعلقات میں سُست رویہ کے شکار رہنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اور بھارت سے امریکی تعلقات بہتری کی جانب جانے کی توقع کی جارہی ہے مگر پاکستانی حاکمین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستانی وزیر خارجہ امریکیوں کی پسندیدہ شخصیت نہیں۔ لہذا پاکستان اپنا وزیر خارجہ تبدیل کرکے ہی امریکا سے کچھ لے سکتا ہے۔

سعودی امریکا تعلقات بہتر نہ ہونے پر تیل کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے جس کے باعث پاکستان سمیت دنیا کے دیگر مملک میں مہنگائی کا ایک بڑا طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔