یوسف رضاگیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ

March 03, 2021

سینیٹ انتخابات میںسب سے زیادہ نظریں اسلام آباد کی نشست پرہیں،جہاں سے پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اُمیدوارہیں جبکہ ان کے مدِمقابل پیپلزپارٹی حکومت ہی کے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہیں۔حفیظ شیخ اب موجودہ حکومت کے وزیرخزانہ اور اُمیدوارہیں۔حفیظ شیخ کا تعلق ورلڈبینک سے رہاہے،آپ جانتے ہیںکہ جنرل پرویز مشرف نے 2000میں انہیں سندھ کا وزیرِ خزانہ مقرر کیا تھا ،اس کے بعداُس وقت کے وزیرِاعظم کا مشیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری مقرر کیا گیا،پھر وہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2006میںاپناکام مکمل کرنے کے بعد واپس امریکہ چلے گئے۔ 2010میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے وزیرخزانہ بنادئیے گئے،پی پی حکومت کے خاتمے پر پھر امریکہ چلے گئے۔نوازشریف کے دور حکومت کے دوران وہ منظر سے غائب رہے اور تحریک انصاف کی حکومت میں وہ ایک بار پھرآئے اور اب تک وزیرخزانہ ہیں اورجنرل پرویز مشرف کے دور کی طرح اُنہیںسینیٹ کا رُکن بنانے کیلئے موجودہ حکومت سرگرم ہے۔ایک حفیظ شیخ پر کیا موقوف ،پاکستان میں تو معین قریشی بھی نگران وزیراعظم بنادیے گئے تھے ۔ وہ بھی ورلڈبینک سے وابستہ تھے ،ان کے متعلق کہاجاتاہےکہ وہ امریکی شہری تھےاورواشنگٹن سے آنے پر پاکستان میں وزارت عظمیٰ کا حلف لینے سے کچھ دیر قبل ہی اُنہیں پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔اپنا کام مکمل کرکے وہ سیدھے وہاں چلے گئے جہاں سے آئے تھے۔ شوکت عزیز کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں،وہ سٹی بینک سے وابستہ تھے،امریکی پاسپورٹ پر پاکستان آئے اور وزیرخارجہ بنے پھر 2004میں میر ظفر اللہ خان جمالی سے استعفیٰ لیکر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا گیا۔موصوف بھی اپنا کام مکمل کرنے کے بعد واپس امریکہ چلے گئے۔موجودہ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کے متعلق بھی یہ تاثر عام ہے کہ وہ بھی حکومت کے خاتمے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ یہاں یہ امر حیران کن ہےکہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو ان عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کو پاکستان پر مسلط کردیتی ہیںجن کا ٹاسک ہی عالمی مالیاتی اداروں کے سودکی وصولی کیلئے پاکستانی عوام کا خون چوسناہے۔سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں سات عشرے گزرنے کے بعد بھی اس قدر توانا کیوں نہ ہوسکیںکہ وہ ایسے لوگوںکا راستہ روک سکیں،بات صرف تحریک انصاف کی نہیںہے جس نے حفیظشیخ کو اپنا وزیرخزانہ واُمیدوار بنایا بلکہ جمہوریت کے راگ الاپنے والی پیپلزپارٹی بھی انہیںاپنا وزیرخزانہ بنانے پر مجبور ہو گئی تھی۔

کون نہیںجانتاکہ غریب عوام کی زندگی عذاب بنانے والی مہنگائی کی وجہ جہاں مہنگائی مافیا ہے، وہاں آئی ایم ایف کی وہ غریب کش شرائط بھی ہیں جن کی تکمیل کیلئے تمام تر کوششیں موجودہ وزیرخزانہ ہی بروئے کار لارہے ہیں۔ماضی میں ہم نے دیکھا کہ امریکہ سے پاکستان یاتراکیلئے آنے والے امریکی مالیاتی اداروں کے نمائندوں نے اصلاحات کے نام پرآئی ایم ایف کے قرضوں کی سود کی وصولی کیلئے کس طرح پاکستان اور اس کے باشندوں کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا۔قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی گیارہ سالوں میں پاکستان نےآئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا۔ 1958میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا،جس کے بعد آئی ایم ایف کا شکنجہ ایسا دراز ہواکہ یہ پاکستان کے گریبان کا گویا لازمی حصہ بن گیا۔جو لوگ ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میںترقی کی بات کرتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا تھا۔مغربی ممالک اور اُن کے مالیاتی ادارے ’تاثر‘ دیتے ہیں کہ وہ غریب ممالک کو قرض مہیا کرکے اُن کی معاشی مشکلات کو کم کرتے ہیں اور اُن کی معیشت کو مضبوط بناتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قیام کا بنیادی مقصد غریب اور کمزور ممالک کو مغرب کا معاشی غلام بنانا ہے۔عالمی اداروں کے اس ایجنڈے کو قرض لینے والے متعددممالک نے معاشی ،اقتصادی ترقی کرکے ناکام بنادیاہے،یہ ایسے ممالک ہیں جنہوں نے سیاسی استحکام کے بعد یہ کامیابی حاصل کی۔مگر پاکستان میں پہلے ایوبی مارشل لانے آئی ایم ایف کو پاکستان کا راستہ بتایا اوراس کے بعد مارشل لائی ادواراور معین قریشی، شوکت عزیز اور حفیظ شیخ کے ادوارمیں یہ پڑائو مستقل ہوگیا۔اس امر میں بھی دورائے نہیں کہ ملکی سیاستدانوں کی اکثریت نے بھی پاکستان کو آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے کوئی انقلابی کردار ادا نہیں کیا۔خلاصہ یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کی کامیابی حکومت کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام کی بھی کامیابی تصورکی جائے گی جبکہ یوسف رضاگیلانی کی سرخ روئی سے اپوزیشن اور اہلِ سیاست کو تقویت ملے گی ،دیکھنا یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی ترجیحات کیاہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)