عورت: بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا....

March 08, 2021

حبیب جالب

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا

دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا

دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ ڈھائیں

انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں

مجبور کے سر پر ہے شاہی کا وہی سایا

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا

تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کے پڑے رہنا

تائید ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا

حق جس نے نہیں چھینا حق اس نے کہاں پایا

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا

کٹیا میں ترا پیچھا غربت نے نہیں چھوڑا

اور محل سرا میں بھی زردار نے دل توڑا

اف تجھ پہ زمانے نے کیا کیا نہ ستم ڈھایا

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا

تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں

سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں

تجھ کو کبھی جلوایا تجھ کو کبھی گڑوایا

بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا