سپر اسٹار کمپنیوں کا تصور

March 30, 2021

بڑی کمپنیاں، چھوٹی کمپنیوں میں ڈيجیٹل صلاحیتوں کے بڑھتے ہوئے فقدان کا فائدہ اٹھا کر اور بھی بڑی ہونے والی ہیں۔ امریکی معیشت میں ایمیزون، فیس بک، گوگل، ایپل اور وال مارٹ کے علاوہ ایئر بی اینڈ بی، ٹیسلا اور اس جیسی دیگر بڑی کمپنیوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ماہرین اقتصادیات نے انھیں سپراسٹار کمپنیز کا نام دیا ہے۔ یہ کمپنیاں مختلف صنعتوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز استعمال کر کے ایسی مارکیٹ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں، جہاں چند کمپنیوں کا راج ہے۔

دنیا کی سب سے اسمارٹ اور جدت پسند 50کمپنیوں کی ایک فہرست جاری کی گئی ہے۔ یہ فہرست ان کمپنیوں پر مشتمل ہے، جو اختراعی (Innovative) ٹیکنالوجیز استعمال کرکے اپنے کاروبار کو آگے بڑھارہی ہیں۔ اس فہرست کے ذریعے ان کمپنیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو آگے چل کر مزید نمایاں مقام حاصل کرنے والی ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایمیزون، فیس بک اور گوگل تو شامل ہیں ہی، لیکن اس کے علاوہ کافی نئی کمپنیاں بھی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان کا نام نہ سنا ہو، لیکن آگے چل کر یہی کمپنیاں مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیز کا فائدہ اُٹھا کر بہت آگے نکلنے والی ہیں۔

سپراسٹار کمپنیوں نے موجوہ منظرنامہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ڈیجیٹل کمپنیاں انٹرنیٹ اور بگ ڈيٹا کے ذریعے ویب سرچ اور آن لائن شاپنگ جیسی سہولیات کے علاوہ انقلابی ڈیوائسز فراہم کرکے حد سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوچکی ہیں۔

سپراسٹار کمپنیوں کی فہرست میں صرف انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار کرنے والی کمپنیاں ہی نہیں ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور ایم آئی ٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، چاہے نقل و حمل ہو یا مالیات، ہر صنعت میں ہی سپراسٹار کمپنیوں، یعنی اس صنعت کی چار سب سے بڑی کمپنیوں، کا حصہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور اس تحقیق کے شریک بانی لارنس کیٹز کے مطابق سپراسٹار کمپنیوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان نے پچھلی دہائی میں کئی ممالک کی معیشت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

یہ کمپنیاں ان ممالک میں زیادہ نمایاں کردار ادا کررہی ہیں، جن کی معیشت میں ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہےاور فروغ پارہی ہے۔ کیٹز کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کمپنیاں نئی ٹیکنالوجیز کو تیز رفتاری کے ساتھ اپناتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کمپنی کو کامیاب ہونا ہے تو اسے اسمارٹ ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ پیچھے رہ جائے گی۔

پہلی نظر میں تو اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ لیکن اس تحقیق میں حصہ لینے والے محققین کے مطابق، کسی بھی معیشت میں صرف چند ہی کمپنیوں کا نمایاں ہونا بہت پریشان کن بات ہے۔ 20ویں صدی میں کام کرنے والے ملازمین کو بڑھتی ہوئی آمدنی کا متناسب حصہ مل رہا تھا۔ جیسے جیسے معیشت ترقی کرتی تھی، ملازمین کے حصے میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ تاہم پچھلی چند دہائیوں سے یہ رجحان تبدیل ہونے لگا اور ملازمین کا حصہ کم ہوتا گیا۔ ایسا کئی ممالک میں ہورہا ہے، لیکن 2000ء کی دہائی میں امریکا میں یہ رجحان زیادہ نظر آیا۔

کیٹز اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے ساتھی محققین، سپراسٹار کمپنیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ کمپنیاں بڑی ہوتی جاتی ہیں، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے لگتی ہیں، جس میں ملازمین کی ضرورت کم ہوتی جاتی ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان سپراسٹار کمپنیوں کی تنخواہیں بھی سب سے اچھی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سے معاشرے کا ایک طبقہ دوسرے طبقوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے امیر ہورہا ہوتا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات نیکولس بلوم اور ان کے رفقاء کار نے ثابت کیا ہے کہ 1980ء کے بعد سے امریکا میں ایک تہائی مالی عدم مساوات کی وجہ ان چند بڑی کمپنیوں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوناہے۔ ان کمپنیوں کے اعلیٰ تربیت یافتہ ملازمین کو منافع میں حصہ دیا جاتا ہے، لیکن ان افراد کی تعداد میں متواتر کمی ہورہی ہے۔ کیٹز کہتے ہیں کہ، اس صورتِ حال کا ملک میں پھیلنے والی مالی پریشانی میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔

سپراسٹار کمپنیوں کی ترقی معیشت میں نظر آنے والے ایک اور رجحان کی وجہ بن سکتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں سافٹ ویئر، ڈیجیٹل ڈیوائسز، مصنوعی ذہانت اور سیلیکون ویلی میں کام کرنے والی کمپنیوں کے منافع میں اضافے کے باوجود امریکا کے علاوہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں اقتصادی ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ اگر ہائی ٹیک صنعتیں اتنی تیزی سے ترقی کررہی ہیں، تو مجموعی ترقی اس قدر کم کیوں ہے؟

انجمن اقتصادی تعاون و ترقی سے وابستہ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ، انھیں اس کا جواب مل گیا ہے۔ تمام صنعتوں کی سب سے بڑی کمپنیوں کی پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وہ کمپنیاں ہیں جو انٹرنیٹ، سافٹ ویئر اور دیگر ٹیکنالوجیز کے ذریعے اپنے عملیات کو اسٹریم لائن کرنے اور نئی منڈیوں میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔

تاہم زیادہ تر کمپنیاں، نئی ٹیکنالوجیز کا مؤثر طور پر استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ او ای سی ڈی کے ماہراقتصادیات ڈَین اینڈریوز کے مطابق، ان کمپنیوں کی سست پیداوار پوری معیشت کو متاثر کررہی ہے۔ اینڈریوز، جو امریکا کے علاوہ دیگر 23 ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالنے والی اس او ای سی ڈی کی تحقیق کے شریک بانی ہیں، کہتے ہیں، ’ٹیکنالوجیز کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور کئی کمپنیوں کے لیے انھیں اپنانا مشکل ثابت ہوسکتا ہے‘۔

او ای سی ڈی تحقیق کے نتائج اس لحاظ سے امید افزا ہیں کہ ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بڑی کمپنیاں اختراع سے مستفید ہو کر پیداوار میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ تاہم اینڈریوز کہتے ہیں کہ جو کمپنیاں پیچھے رہ گئی ہیں، وہ نئے کاروباری طریقہ کار نہ اپنانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہی ہیں۔ ان کے مطابق، اس کی وجہ اب تک واضح نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ معیشت کی نئی ٹیکنالوجیز استعمال کرنے کی رفتار اتنی تیز نہیں ہے جتنی ہم سمجھ رہے تھے۔

اینڈریوز کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمیں کاروبار کے لیے ایک بہتر ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جس میں زیادہ اسٹارٹ اَپ کمپنیاں پروان چڑھ سکیں۔ آج کل کے دور کی بڑی کمپنیاں آگے نکل رہی ہیں، لیکن اس کا فائدہ کم لوگوں کو ہورہا ہے۔ مصنوعی ذہانت جیسی پیچیدہ ٹیکنالوجیز کاروباری ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں، لیکن انھیں سمجھنا اور ان میں مہارت حاصل کرنا بہت مشکل ہے، جس کی وجہ سے بڑی کمپنیاں دوسروں کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ نئی کمپنیوں کو ایسی منڈیاں تخلیق کرنے کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے، جو ابھی سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔