وزارتِ اطلاعات و نشریات اور فواد چوہدری

April 18, 2021

آج کالم شروع کرتے ہیں فواد چوہدری کے دادا سے۔ ان کا نام چوہدری محمد اویس تھا۔انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز سر چھوٹو رام کی قیادت میں کیا۔وہ بڑے عوامی اور انقلابی آدمی تھے۔ غریبوں اور کسانوں کے ساتھی تھے۔چوہدری ہونے کے باوجود ان کا دل عام لوگوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ ہندو بنئے اور سود کے سخت مخالف تھے۔ جب چھوٹو رام نے 1925 میں ہندو بنئے کے خلاف کسان تحریک شروع کی تھی تو چوہدری محمد اویس ان کی تحریک کےسرگرم رکن بن گئے۔ چھوٹو رام کے حق میں مولانا ظفر علی خان نے نظم لکھی تھی۔

ہو گئی جاٹ اور بنئے میں جھڑپ

قصہ سنئے اس کا چھوٹو رام سے

میں ہوں جاٹ اس واسطے بنئے مجھے

دے رہے ہیں نسبتیں اسلام سے

سود کی لعنت سے میں بیزار ہوں

ساتھ ہی اس قومِ خوں آشام سے

جاٹ ہوں بیشک مگر ہندو تو ہوں

ضد ہے پھر کیوں ان کو میرے نام سے

چوہدری محمد اویس زیادہ دیر چھوٹو رام کے ساتھ نہیں رہے۔وہ 1926ء میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔1946میں ڈسٹرکٹ بورڈ جہلم کے چیئرمین منتخب ہوئے۔تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے ضلعی صدر رہے۔ان کے چار بیٹے تھے ، افتخار حسین چوہدری۔ ( چیف جسٹس رہے)،جاوید حسین چوہدری، الطاف حسین چوہدری ( دومرتبہ گورنر پنجاب رہے ) نسیم حسین چوہدری ،یہ فواد چوہدری کے والد گرامی تھے۔ اس خاندان نے پہلے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کااور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ چوہدری محمد اویس کے خاندان میں سب سے زیادہ نام چوہدری فواد حسین نے کمایا۔کہتے ہیں فواد چوہدری اپنے داد ا کی کاپی ہیں۔ انہی جیسا دل و دماغ رکھتے ہیں۔ انہیں دوبارہ اطلاعات و نشریات کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ اس مرتبہ وہ پورے اختیار کے ساتھ وزیر بنائے گئے ہیں۔ ان کااختیاران کے نوٹیفکیشن میں باقاعدہ درج کیا گیا ہے۔ ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا ’’میں بحیثیت وزیرِ اطلاعات و نشریات ہر ممکن کوشش کروں گا کہ پاکستان کے متعلق دنیا کے تاثر کو تبدیل کروں۔ ہمیں پاکستان کا تاثر بدلنا ہے۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ پاکستان نے جن ممالک کی جنگیں لڑیں ،انہوں نے ہی پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا کے بدترین پاسپورٹس کی فہرست میں ڈال دیا۔ وزراتِ اطلاعات و نشریات میں میری پالیسی وہی ہو گی، جو پچھلی مرتبہ تھی۔ ‘‘بے شک پچھلی مرتبہ جب فواد چوہدری وزیر اطلاعات بنائے گئے تھے توانہوں نے ستر سال کے بعد سب سے بڑی ریفارمزکرنے کی کوشش کی تھی۔ جن میں پی ٹی وی کو سرکاری اثرو رسوخ سے نکالنا تھا۔اس کے تباہ حال ڈھانچے کودوبارہ سےایک جیتے جاگتے ادارے میں تبدیل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں پی ٹی وی لاہور سنٹر پر مجھ سے ایک باقاعدہ پریزنٹیشن اپنی ٹیم کودلوائی تھی۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان کے متعلق ان کا وژن بڑا واضح تھا‘ وہ اسے دنیا کے بڑے ریڈیومیں بدلنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کو بین الاقوامی میڈیا یونیورسٹی کی سطح کا ادارہ بنانے کا خواب دیکھا۔اس پروجیکٹ پر تقریباً پچاس ارب روپے خرچ ہونے تھے۔معلوم ہوا کہ صرف اسلام آباد اسٹیشن کی عمارت فروخت کردی جائے تو پچاس ارب روپے مل سکتے ہیں۔ سو اس آئیڈیئےپر کام شروع کردیا گیا مگر ترقی کا راستہ روکنے والوں نے ناک میں دم کر دیا۔ وہ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان ، اے پی پی اور وزارت ِ اطلاعات و نشریات کوان کےاثاثوں کی مدد سے کیمونی کیشن کےماڈرن ترین ادارے بنانے کے خواہشمند تھے۔ انہوں نے مجھےکہا تھا کہ وزارت اطلاعات کےجو میگزین ہیں۔ مہ نو اور پاک جمہوریت ، میں چاہتا ہوں کہ یہ یونین کونسل کی سطح تک پہنچیں ، الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے ہر معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی ان سے روشنی اور خوشبو حاصل کرے تاکہ حکومت اور عوام کے درمیان ڈائریکٹ معلومات کی فراہمی ممکن ہو۔ ایک علمی معیشت کیلئے یہ سب کچھ ضروری ہے، اس مرتبہ ان کا سلوگن Knowledge Economy ہے۔ علم کی معیشت ،علم اور معلومات کی براہ راست پیداوار، تقسیم اورپیداوار پر مبنی ہے لیکن ایک موثر اور جدید انفارمیشن اور ایجوکیشن نظام کے بغیر علمی معیشت کی ترقی ممکن نہیں۔ فواد چوہدری کو اس مقصد کےلئے صرف انفارمیشن نہیں ایجوکیشن کے نظام پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ انہیں وزیر تعلیم کو بھی اپنے پہلو میں بٹھا کر تعلیمی پالیسیاں تیار کرانا ہوں گی۔

توقع ہے کہ وہ پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان ، اے پی پی ،ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشن جو کافی عرصہ سے مردہ گھوڑا ہے ،اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ پچھلے سال ان کی سب سے بہتر کارکردگی نایاب تصویروں کی نمائش تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے جس مقصد کیلئے یہ ڈائریکٹوریٹ بنایا گیا تھا۔ اس طرف کبھی کسی نے دھیان ہی نہیں دیا ، کروڑوں روپے پبلی کیشن کے نام پر ہرسال خرچ ہوتے ہیں مگرکیا چیز کتنی شائع ہوتی ہے ، شرم سے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ صرف پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کو انفارمیشن منسٹری سمجھا جاتا ہے ،وہاں ایک سائبر ونگ بھی ہے جہاں سعید شیخ کو ڈی جی لگایا ہے۔ سعید شیخ کہتے ہیں کہ اس منسٹری کا سب قابل افسر یہی ہے۔وہاں انٹرنل پبلسٹی ونگ ہے۔ ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ ہے۔ سنسر بورڈ۔ شالیمار ریکارڈنگ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ہے اور بھی کئی ڈپارٹمنٹ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ فواد چوہدری ان تمام ڈپارٹمنٹس کو ایک نئی زندگی دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔