رمضان المبارک کا احترام پامال نہ کریں

April 18, 2021

رمضان المبارک کی آمد تھی کورونا نے ایک بار پھر زور پکڑا ہوا تھا۔ کراچی میں لاک ڈائون ،اسکولوں میں چھٹیاں ،ریسٹورنٹس کی بندش،مارکیٹوں اور بازاروں میں جزوی کاروباری اوقات کا اعلان ہو چکا تھا ،مگر ہمارے عوام ان احکامات سے سخت نالاں نظر آرہے تھے۔ وہ اس کو معاشی قتل ،بے روزگاری سے تشبیہ دے رہے تھے ،ادھر سندھ حکومت اپنی ناقص حکمت عملی سے کورونا کو روکنے میں ناکام ہو تی جا رہی تھی مگر ملبہ عوام اور تاجروں پر ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جبکہ مرکزی حکومت کو بھی ساتھ ساتھ موردِ الزام ٹھہرا رہی تھی۔ سیاسی مخالفین کو عوام سے زیادہ اپنی اپنی جماعتوں کی فکر تھی۔ہر صورت میںیہ ناکام سیاست دان جو2018کا الیکشن ہارکر اپنا بدلہ نام نہاد PDM کے پلیٹ فارم سے PTIحکومت خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کے خلاف محاذبنا کر جلسے جلوسوں کے ذریعے دبائو ڈالنے میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک کیا ہوا6ماہ کی جدو جہد کا نتیجہ استعفوں کے آخری مراحل پر پی پی پی کی قیادت کے انکار پر ناکامی اور انتشار کا گولہ سیاسی میدان میں آکر پھٹ گیا اور مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کی ساری بنی بنائی حکمت عملی ناکامی میںتبدیل ہوگئی۔جو کل تک ایک دوسرے سے شیرو شکر تھے ‘ایک دوسرے پر یوں برسنے لگے جیسے جانتے ہی نہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی نوجوان قیادتوں کو نئے موڑ دینے والے خود ہی آپس میں الجھ پڑے اور PDMکا شیرازہ بکھر گیا۔ رہی سہی کسر بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمٰن کابھیجا ہوا محبت سے بھرا شوکاز پھاڑکر پوری کردی اور اس کو شرمناک حرکت اور پی پی پی کی خود مختاری پر ڈاکہ قرار دے کر آئندہ کی ساری حکمت عملی کا کریاکرم کردیا۔ اس طرح پی ٹی آئی حکومت جس کی کشتی ڈانواں ڈول ہو تی جار ہی تھی جو ایک طرف اپنی ہی پارٹی کے صوبائی اورقومی اسمبلی کے ناراض ممبران جو جہانگیر ترین کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو چکے تھے ،اُن سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی تھی۔PDMکا قومی ترانہ بجنے سے اس کے اندر ایک نئی جان آگئی۔ اب بقایا 2 سال آرام سے گزار لے گی اور پوری PDMسیاسی عدت میں چلی گئی۔اندرونی سیاست کی کہانی کے کچھ ٹکڑے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ جو میڈیا کے رکھوالے اپنی اپنی بساط بچھائے اپنے اپنے چینل پر الاپ رہے ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی خصوصاً عمران خان کو ایک اور لائف لائن دلوادی گئی۔ابھی عمران خان PDM کے جھٹکوں سے باہر نکلے ہی تھے کہ سیاسی شیرآف لال حویلی بے لگام وزیر داخلہ نے اچانک تحریک لبیک پاکستان کے نئے نوجوان سربراہ سعد رضوی جن کو سیاسی میدان میں اترے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے ان کے مرحوم والدخادم حسین رضوی کی طرح راتوں رات گرفتار کر لیا اور جیل میں ڈال دیاگیا ،مگر وہ یہ بھول گئے کہ یہ سیاسی کم اورمذہبی جماعت زیادہ ہے۔ جو ناموس رسالت کے نام پر تشکیل دی گئی تھی ،جس کے چاہنے اور ماننے والے صرف اور صرف ناموس رسالت سے واسطہ رکھتے ہیں اور 2018کے الیکشن میں بہت بڑی کارکردگی دکھا کر بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حیران کر چکے تھے۔اس کے کارکنانPTIکی فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے وعدوں سے انحراف برداشت نہ کر سکے اور سڑکوں پر ہر شہر میں نکل پڑے۔ خصوصاً کراچی،لاہور، راولپنڈی،اسلام آباداور پشاور کے شہروںکا نظام درہم برہم کر ڈالا۔ عوام اس ناگہانی آفت سے آگاہ نہیں تھے نہ ہی انتظامیہ اور پولیس اتنی جلدی توقع کر رہی تھی تو حسب سابق بوکھلاگئی اور نئی مصیبت سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ پتھرائو،جلائو، گھیرائو ہرطرف دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا اور پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اپنی عزت بچانے کے لئے حکومت نے جب پورا نظام درہم برہم ہوتے دیکھا تو فوج اور رینجرز سے ہنگامی طور پر نمٹنے کی درخواست کر کے اپنی ناکام حکمت عملی تسلیم کر لی ہے۔ دونوں طرف جان ومال کے نقصان سے عوام حیران و پریشان ہو گئے۔ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان اور شیخ رشید کو ایسی کیا جلدی تھی اور رمضان المبارک کا مہینہ گزرنے کاانتظار کرلینے میںکیا قباحت تھی۔پہلے سے ناراض کارکنوںکو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟وہ بھی ناموس رسالت کے حساس معاملے میں رمضان المبارک کے با برکت ماہ کی عظمت کوتہہ و بالاکرنے کاکس نے مشورہ دیا تھا۔ اس پر نگاہ ڈالیں اور فوری طور پر اس مسئلہ کو حل کریں اور اس آگ کو بڑھانے سے اجتناب کریں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جو معاہدہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کیا گیا تھا اس کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا،مگرآخری خبر آنے تک تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگا دی گئی ہے جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے برابر ہو گا۔ افسوس ایک تو وعدہ کیا اور اس کو وفا نہ کیا اور اس کے برعکس ان پر پابندی لگا دی۔