دبستانِ شعر

May 03, 2021

شکیب جلالی

دشت و صحرا اگر بسائے ہیں

دشت و صحرا اگر بسائے ہیں

ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں

آپ نغموں کے منتظر ہوں گے

ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں

ایک اپنا دیا جلانے کو

تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں

کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو

یک بیک روشنی میں آئے ہیں

یوں تو سارا چمن ہمارا ہے

پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں

کہاں رُکیں گے مسافر

کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے

بدل رہا ہے جنوں زاویے اڑانوں کے

یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا

شگاف پر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے

چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام

پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے

ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں

مرے رفیق ہیں مطرب گئے زمانوں کے

کبھی ہمارے نقوش قدم کو ترسیں گے

وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے