یہ وبائی دور بھی اہم ہے اور ہم بھی

May 13, 2021

سب سے پہلے تو آپ کو، اہلِ خانہ اور احباب کو دل کی گہرائیوں سے عید کی مبارکباد۔

یہ عید یقیناً آلام، اموات کے جلو میں آرہی ہے۔ مسرت کا روایتی جواز نہیں بنتا لیکن وہ کلمہ گو بھائی جنہیں پورے روزے رکھنے کی توفیق میسر آئی۔ تراویح میں کلام پاک سننے کی سعادت حاصل کی۔ خود کئی کئی قرآن ختم کرنے کا موقع ملا۔اعتکاف کا ثواب کمایا۔ ان کا تو حق ہے کہ وہ اللہ کے حضور شکر گزار ہوں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایسے سب برادران اسلام کو ہدیۂ تبریک پیش کریں۔

ایک اور خبر داری۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کہتی ہیں کہ ان تم مصائب کے باوجود عیدی ان کا حق بنتا ہے۔ کورونا کو بہانہ بناکر ان کی عیدی نہ روکئے گا۔ ورنہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردیں گے۔

کورونا کے پُر آشوب دَور میں یہ دوسری عید الفطر ہے۔ گزشتہ سال عید سے پہلے ایک طیارے کے حادثے نے کئی خاندانوں کو لا متناہی غم میں مبتلا کردیا تھا۔ وبا نے دنیا میں اب تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ انسان وبا کے سامنے اپنی پوری ذہانت اور تحقیق کے باوجود عجز کا شکار ہے۔ امیر ترین قوموں کا بھی وہی حال ہے جو غریب ملکوں کا مگر ہمارا عظیم دوست چین بڑی پامردی اور اعتماد سے اس وبا کو بے دست و پا کیے ہوئے ہے جس نے امریکہ، یورپ، انڈیا کو مفلوج کر رکھا ہے۔ میرے احباب اور خاص طور پر میری چھوٹی بیٹی مجھ سے بار بار کہہ رہی ہے کہ آپ ہمیں اور لوگوں کو بتائیں کہ چین نے کس طرح اپنے پیارے لوگوں کو اس وبا کی ہلاکت خیزی سے بچایا ہوا ہے۔ میں رابطے کررہا ہوں۔ ویب سائٹ دیکھ رہا ہوں۔ چین کو سمجھنے والوں سے، چین میں رہنے والوں سے جاننا چاہ رہا ہوں تو یہ کھل رہا ہے کہ یہ سب خودی کے اسرار ہیں۔ چین نے اپنی خودی کو اتنا بلند کرلیا ہے کہ قدرت اس سے اس کی رضا پوچھتی ہے۔ اس پر ایک دو نہیں کئی تحریریں آپ کی نذر کرنا ہوں گی۔ یہ آج کی تاریخ کا بلا شُبہ ایک عظیم کرشمہ ہےکہ کس طرح ایک قوم نے فرد واحد کی طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اتحاد۔ نظم و ضبط۔ ایمان ہمارے قائد کے فرمان تھے۔ اس کا مظاہرہ مائوزے تنگ اور ڈینگ سیائو پنگ کے معتقدین کررہے ہیں۔ بہت ہی ولولہ تازہ دینے والی کہانیاں ہیں۔دسمبر 2019 سے تاحال۔ ایک جدو جہد ایک الرٹ جاری ہے۔ نصب العین یہ ہے Fight till the day of victory۔ پہلے مرحلے پر پورے چین سے جن رضاکاروں، ڈاکٹروں، ماہرین اور دانشوروں کو ووہان کے میدان جنگ میں لایا گیا تھا۔ ان کی واپسی کے لیے ٹکٹ پر لکھا گیا تھا Day of Victory۔ دُعا کریں کہ میں آپ تک یہ کارنامے اسی جذبے اور روح کے ساتھ پہنچاسکوں جو چین والوں کے تھے۔ لیکن آپ سے یہ ضرور درخواست کروں گا کہ آپ خود کو غیر اہم نہ سمجھیں۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ انسان نے ویکسین اسی ایک سال کے اندر ایجاد کرلی ہے۔ اور وہ کروڑوں انسانوں کے جسم میں داخل ہوکر اس موذی وائرس سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان مشکلات میں ہے۔ اقتصادی بد حالی ہے۔ نقد رقوم کا مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود اپنے ہمسائے ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی، کئی گنا زیادہ آمدنی والے بھارت کے مقابلے میں ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بڑی کامیابی سے زیادہ ہلاکتوں کو روکا ہوا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ویکسین مفت اور اچھے ماحول میں لگائی جارہی ہے۔ ہمیں چاہئے ﷲ کا بھی شکر کریں اور ان بندوں کا بھی جو اس انتظام پر مامور ہیں۔

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہم بد قسمت ہیں کہ اس وبا کے دنوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہم اگر تاریخ کا شعور رکھتے ہوں اور جغرافیے کی فہم تو ہمیں اپنی عظمت اور اہمیت محسوس ہوگی۔ ہم تاریخ انسانی کے ایک غیر معمولی دَور سے گزر رہے ہیں۔ جب انسان کی ترقیاتی دوڑ اپنے عروج پر تھی۔ لیکن وہ بے سمت ہورہی تھی۔ اس لیے اس میں ایک بریک لگی ہے۔

اب ہمیں مہلت ملی ہے کہ ہم باگ ہاتھ میں لیں اور پائوں رکاب میں رکھ سکیں۔ غور کریں کہ ہم صحت عامہ کے جس بحران سے دوچار ہیں۔ اس میں ایک ایک فرد اہم ہے۔ اس کے رجحانات، حرکات اور محسوسات پر آئندہ ایم فل اور پی ایچ ڈی ہوگی۔ ہم آنے والی نسلوں کی تحقیق کا موضوع ہوں گے۔ ہم کوئی بھی ہیں۔ اس وقت ایک لیبارٹری میں ہیں۔ قدرت بھی تجربے کررہی ہے اور جدید سائنسی علوم کے ماہرین بھی۔ آنے والی نسلوں کی بقا ہمارے ردّ عمل سے وابستہ ہے۔ ہر عام عہد پر ایسے تحقیق نہیں ہوتی جیسے ہمارے عہد پر ہورہی ہے۔ اور ہوتی رہے گی ۔ آنے والے انسانوں کے لیے ہم آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر چین کی طرح ہم بھی اپنی خودی کو جان لیں ہر قدم سوچیں کہ اگلا قدم کیسے رکھنا ہے۔ سانس کیسے لینا ہے۔ویسے بھی ٹیکنالوجی جتنی ترقی کرچکی ہے، ہماری ہر حرکت از خود ریکارڈ ہورہی ہے۔ یہ ہمارا موبائل فون ہماری حرکتوں اور سوچوں کا عینی شاہد بن رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق قلمبند ہورہے ہیں۔ کل وہ کہیں گے کہ چین اس آزمائش میں سرخرو رہا۔ بھارت کے بارے میں بھی سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ہر انسانی جان قیمتی ہے۔ اس وقت ہم سب وسائل لگاکر انسان کو بچالیں۔ انسان زندہ رہے گا تو وسائل پھر حاصل کرلے گا۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ کل کا مورخ کیا ہمارے بارے میں یہ لکھے کہ مملکت خداداد پاکستان کے باشندے حماقت کی حد تک جذباتی تھے۔اپنی سیاسی وابستگی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز قرار دیتے تھے۔ اپنی فرقہ وارانہ وفاداری کو اپنی زندگی سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ دکاندار اپنی روزانہ کی کمائی کو اپنی اور اپنے گاہکوں کی جان سے زیادہ ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے سیاسی رہنما بھی اس عالمگیر وبا کی شدت سے اپنے پیروکاروں کو با خبر رکھنے کی بجائے انہیں اپنے استقبالیوں اور پیشیوں پر جوق در جوق آنے پر آمادہ کرتے تھے۔ اینکر پرسن بھی اس وبا کی ہلاکت خیزیوں پر ماہرین سے بات کرنے کی بجائے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں سے ان امور پر گفتگو کرتے تھے ، جن کا اس عالمگیر وبا سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔

یہ دور طبّی، علمی، سائنسی اور عمرانی حوالوں سے جتنا اہم ہے، اسی اعتبار سے اس دَور میں اتارے گئے ہم انسان بھی اہم ہیں۔ اپنی اس اہمیت کا شعور ہی ہمیں تاریخ میں زندہ رکھے گا اور جو طبقے شعبے اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں کررہے وہ نہ صرف اپنی معدومی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اپنے پیاروں، اولادوں اور اپنے ہم عصروں کی ہلاکت میں بھی اعانت کررہے ہیں۔