دبستانِ شعر

June 21, 2021

ایک درخواست

احمد ندیم قاسمی

زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں

دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے

سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر

سوچنا بھی جرم ہے

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر

جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر

زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے

اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے

اے خداوندان ایوان عقائد

اے ہنر مندان آئین و سیاست

زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیئے

مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

جون ایلیا

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

یاد تھے یادگار تھے ہم تو

پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ

تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو

وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے

شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند

آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا

سخت بے اعتبار تھے ہم تو

شرم ہے اپنی بار باری کی

بے سبب بار بار تھے ہم تو

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور

خود ہی بے اختیار تھے ہم تو