معروف برطانوی ادیب ’’ای ایم فورسٹر‘‘

June 28, 2021

غیر منقسم ہندوستان میں، ایسے کئی ادیب تھے، جن کا تعلق اس سرزمین سے نہیں تھا، مگر انہوں نے دلچسپی سے یہاں کی ثقافت، رسم و رواج پر لکھا، ان ہی میں سے ایک معروف ترین برطانوی ادیب’’ای ایم فورسٹر‘‘ تھے۔ انہوں نے برٹش انڈیا پر ناول ’’اے پیسج آف انڈیا‘‘لکھ کر اپنی عالمی شہرت میں خوب اضافہ کیا۔ ان کے اس ناول پر برطانیہ میںتھیٹر کے منچ پر کھیل کھیلا گیا اور پھر اسی ناول پر مشہور زمانہ فلم بھی بنی۔ ٹائم میگزین کے مطابق، اس ناول کا شمار دنیا کے 100 معروف کلاسیکی ناولوں میں کیا جاتا ہے۔

معروف برطانوی ادیب، جن کا مکمل نام’’ایڈورڈ مورگن فورسٹر‘‘ ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1879 اور وفات کا برس 1970 ہے۔ یہ ایک ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے مضمون نگار اور گیت نگار بھی تھے، گیت وہ اوپیراتھیٹر کی کلاسیکی بندشوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ ان کی کہانیوں میں طبقاتی تقسیم، سماجی منافقت اور انسانی رویوں کی مختلف جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے مقبول ناولوں میں’’اے روم وِد ویو‘‘ اور’’ہاورڈز اینڈ‘‘ کے علاوہ’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ میں ان جہتوں کی منظرکشی بہت اچھی کی گئی ہے۔ ’’ای ایم فورسٹر‘‘ 16برسوں تک نوبیل ادبی انعام کے لیے نامزد ہوتے رہے، لیکن یہ انعام ان کو کبھی مل نہ سکا۔

’’ای ایم فورسٹر‘‘ کا بچپن اس لحاظ سے اداس گزرا کہ یہ ابھی دو سال کے تھے، جب والد کی رحلت ہوگئی۔ ابتدائی تربیت والدہ نے کی۔ انہوں نے اپنے ایک ناول’’ہاورڈز اینڈ‘‘ میں اپنی بچپن کی یادوں کو برتا ہے۔ خاندانی طور پر مالی آسودگی تھی، جس کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر اپنی تعلیم مکمل کرلی اور ادیب بننے کی طرف پوری طرح متوجہ ہوگئے۔

ان کو ادبی ماحول بھی میسر آیا اورخود بھی ایسی صحبتوں کا حصہ رہے، جہاں سے ادب شناسی میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ ’’ای ایم فورسٹر‘‘ جز وقتی طور پر تدریس سے بھی وابستہ تھے، انہوں نے اس سلسلے میں برطانیہ کی معروف آسٹریلوی نژاد ادیبہ’’ایلزبتھ وون آرنیم‘‘ کے بچوں کو پڑھایا۔ اسی طرح بیسویں صدی کے معروف مسلم اسکالر، فلسفی اور مورخ سرسید احمد خان کے پوتے راس مسعود بھی ان کے طالب علم تھے۔’’ای ایم فورسٹر‘‘ اپنی ان یادوں کو زندگی کا قیمتی سرمایہ تصور کرتے تھے۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں’’ای ایم فورسٹر‘‘ نے فیصلہ کیا، وہ رسمی تعلیم سے بہرہ ور ہوچکے، لہٰذا وہ اب دنیا کی سیاحت کریں گے تاکہ پنے تجربات میں اضافہ کرسکیں، اسی غرض سے پہلے کئی یورپی ممالک کا دورہ کیا، جن میں اٹلی، جرمنی، یونان اور دیگر ممالک شامل ہیں، پھر مصر اور انڈیا کا سفر کیا۔ انڈیا میں ایک مہاراجہ کے ہاں نجی سیکرٹری کے طور پر بھی کچھ عرصہ ملازمت بھی کی، جس کا اصل مقصد انڈیا کی ثقافت کو سنجیدگی سے سمجھنا تھا۔

اس عرصے کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب’’دی ہل آف دیوی‘‘ بھی تصنیف کی۔ اسی زمانے میں اپنا معروف ناول’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ لکھا۔ انہوں نے کچھ عرصہ بی بی سی میں بھی کام کیا، اس وقت وہاں ان کے ساتھ معروف برطانوی ادیب’’جارج آرویل‘‘ بھی تھے، جو ہندوستانی سیکشن میں کام کرتے تھے۔

’’ای ایم فورسٹر‘‘ نے کل 6 ناول لکھے، ان کا پہلا ناول’’وئیر اینگلز فیر ٹو ٹرے ایڈ‘‘ تھا، جس کی اشاعت 1905 میں ہوئی، جبکہ ان کا آخری ناول’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ تھا، جو 1924 میں شائع ہوا، لیکن تعداد کے اعتبار سے شائع ہونے والا، ان کا آخری ناول’’مورس‘‘تھا، جوبعداز مرگ 1971 میں اشاعت پذیر ہوا۔ ان کی کہانیوں کے 4 مجموعے چھپے، جبکہ تھیٹرکے لیے کھیل(1940) فلم کے لیے اسکرپٹ(1945) اوپیراکے لیے گیت نگاری(1951) ادبی تنقید (1927) کے علاوہ اپنی سوانح عمری، سفرنامے، خطوط، یادداشتیں اور مختلف نوعیت کی تحریریں بھی لکھیں۔

ان کے ناولوں اور مختصر کہانیوں پر، تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کے شعبوں میں استفادہ کیا گیا، اس میں سب سے زیادہ کام جس ناول پر ہوا، وہ’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ ہے، جس کی کہانی تھیٹر کے منچ اور فلم کے پردے کی زینت بنی اور اس کو بے پناہ مقبولیت بھی ملی۔ ’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ کی اشاعت 1924 میں ہوئی۔ اس ناول کا پس منظر انگریزوں کے زمانے کا ہندوستان، وہاں کارہن سہن اور حالات تھے۔ آزادی کی تحریک بھی اس پس منظر کا حصہ تھی، جس کو’’ای ایم فورسٹر‘‘ نے اپنے اس شہرہ آفاق ناول میں برتا۔ انیسویں صدی کے معروف امریکی شاعر’’والٹ وائٹ مین‘‘ کی ایک نظم کاعنوان’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ تھا، جس فورسٹر نے اپنے ناول کے عنوان کے طور پر مستعار لیا۔ کہانی چار مرکزی کرداروں کے محور پر گھومتی ہے، جوہندوستان میں موجود ہیں۔ اس ناول پر بہت سارے لوگ کام کرنا چاہتے تھے۔

اس سلسلے میں ایک امریکی مصنفہ’’سانتھارا مارو‘‘ تھیں، جن کی پیدائش ہندوستان کی تھی۔ انہوں نے اس ناول کو تھیٹر کے لیے ڈرامائی تشکیل دی۔ یہ کھیل ناول کے عنوان سے ہی پہلی مرتبہ 1960 میں کھیلا گیا، پھر 1962 اور 1965 میں بھی کھیلا گیا۔ برطانیہ میں تینوں مرتبہ اس کھیل کے مرکزی کردار’’ڈاکٹر عزیز‘‘ کو پاکستانی اداکار’’ضیامحی الدین‘‘ نے نبھایا۔ 2002 اور 2004 میں یہ کھیل نئے اداکاروں کے ساتھ دوبارہ اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اب بھی اس ناول پر نئی جہتوں سے مغرب میں کام ہو رہا ہے۔ بی بی سی نے’’پلے آف دی منتھ‘‘ کی ایک سیریز تخلیق کی، جس میں مختلف کھیل عکس بند کیے گئے، اسی موقع پر اس کھیل کو ٹیلی وژن کی اسکرین کے لیے ڈرامائی تشکیل دی گئی، جس میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ضیامحی الدین نے ہی نبھایا، اس ٹیلی وژن ڈرامے کے ہدایت کار وارث حسین تھے۔

’’ای ایم فورسٹر‘‘ نے اپنے اس ناول’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ کے حقوق،فلم بنانے کے لیے، معروف بنگالی فلم ساز’’ستیا جیت رے‘‘ کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ معروف برطانوی فلم ساز’’ڈیوڈ لین‘‘نے اس ناول پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا، تو مصنف نے ان کو اجازت دے دی۔ فلم ساز کے کریڈیٹ پر’’لارنس آف عربیہ‘‘ اور ’’ڈاکٹر ژواگو‘‘ جیسی فلمیں تھیں، انہوں نے پھر’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ بنائی اور خود ہی اس کا اسکرین پلے بھی لکھا۔یہ فلم 1984میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم بنانے میں ہدایت کار’’ڈیوڈ لین‘‘ کو چودہ برس لگ گئے۔ اس فلم میں ڈاکٹر عزیز کا مرکزی کردار، معروف ہندوستانی اداکار’’وکٹر بنرجی‘‘ نے بہت عمدگی سے نبھایا۔

یہ فلم 57ویں اکادمی ایوارڈز کے 11 شعبوں میں نامزد ہوئی، جن میں سے اداکاری اور موسیقی کے شعبوں میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے دو ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ناول کے مرکزی کردار ڈاکٹرعزیز کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر ضیامحی الدین جبکہ فلم میں وکٹر بنرجی نے نبھایا، کارکردگی کے لحاظ سے وکٹر بنرجی اس کردار پرگرفت کرنے میں زیادہ کامیاب رہے اور انہوں نے متاثرکن اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ اس کے پیچھے فلم کے ہدایت کار کی محنت بھی شامل تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ فلم میں اس کردار کو نبھانے کے لیے، معروف بنگالی فلم ساز’’ستیا جیت رے‘‘ نے ہی ڈاکٹر عزیز کے کردار کو نبھانے کے لیے وکٹر بنرجی کو نامزد کیا تھا۔

ایسے تاریخی ناول، نہ صرف ادب کی تاریخ کا حصہ بنتے ہیں، بلکہ ریڈیو، ٹیلی وژن، تھیٹر اور فلم کے شعبوں میں بھی ناظرین و سامعین کو متاثر کرتے ہیں۔ تاریخ کو پیش کرنے کایہ ادبی انداز قارئین کو ہمیشہ بھاتا ہے۔ ہمارے فلم سازوں نے مقامی تاریخی ناولوں سے استفادہ کیا ہوتا ، تو شاید ان ناولوں کی حیثیت بھی ایسی ہوتی، جیسی کہ ’’ای ایم فورسٹر‘‘ کے ناول’’اے پیسج آف انڈیا‘‘ کی عالمی ادب میں ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی