ہماری روایتی تحقیق کا آخری ستون ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی

July 05, 2021

اردو زبان میں بالخصوص ادبی تحقیق نے، اگرچہ سیّد احمد خان اور اُن کے ایک دو معاصرین کے سبب انیسویں صدی کے آواخر میں، محققین کی توجہ حاصل کرلی تھی لیکن واقعتاً بیسویں صدی کے اوائل سے اردو کی علمی اور ادبی تحقیق نے فروغ پایا ، خاص طور پر تیسری دہائی کے آغاز میں، جب اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر مطالعات و تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس روایت کو ایک جامعیت اور معیار جن محققین نے عطا کیا، اُن میں حافظ محمود شیرانی کا بھی نام تھا، جنھوں نے ’’پنجاب میں اردو‘‘ کے موضوع پر پہلے پہل دادِ تحقیق دی جس نے سائنٹفک مطالعات کی ایک قابلِ تحسین روایت قائم کی کہ جس نے آگے چل کر خاصے وقیع مطالعات اردو تحقیق کو دیے۔

اگرچہ ڈاکٹر شیرانی کے پیشِ نظر اس وقت جنوبی ہند یا دکن میں اردو زبان و ادب کے آغاز و ارتقا کی نمایاں مثالیں، بمثل ’’دکن میں اردو‘‘ (از نصیر الدین ہاشمی)، ’’ہندوستانی لسانیات‘‘ (از ڈاکٹر محی الدین قادری زور)، یا ان کے مقابلے میں وسیع تر موضوع کے تحت اردو نثر کی مبسوط تاریخ ’’سیر المصنّفین‘‘ (دو جلدیں از محمد یحییٰ تنہا) ان کے لیے محرک ثابت ہوئیں اور جن کے طفیل انھوں نے اپنے نہایت بلند معیار مطالعات کا ایک تسلسل علمی و ادبی دنیا کو عطا کیا اور یوں اردو میں معیاری تحقیقات کا ایک تسلسل قائم ہوا جو اب تک جاری ہے۔

لیکن زبان و ادب کے آغاز و ارتقا سے قبل ڈاکٹر شیرانی نے اپنے وقیع مطالعات کا سلسلہ اسی وقت شروع کردیا تھا جب وہ اپنے مطالعاتی منصوبے کی تکمیل کے لیے سرکاری وظیفے پر لندن تشریف لے گئے تھے اور وہاں رہتے ہوئے برطانیہ کے متعدد علمی ذخائر اور لندن کے کتب خانوں میں مفید مطلب مآخذ سے بے پناہ استفادہ کیا اور علمی دنیا کو اُن نوادرات سے بھی واقف کرایا جن سے یہاں کسی کو عام واقفیت نہ تھی۔ مثال کے طور پر لندن کے دورانِ قیام اُنھوں نے جہاں متنوع علمی کام کیے، وہیں ۱۹۱۱ء میں ایک مستشرق ہنری اسٹب (Henry Stubbe) کی ایک کتاب کے ایک باب Early Legends and Fables Concerning Islam کا ترجمہ کیا جس سے شاید مسلم دنیا بھی زیادہ واقف نہ تھی (اس مقالے یا باب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جاویداحمد خورشید نے ’’حافظ محمود شیرانی کا ایک غیرمعروف اور نادر علمی کارنامہ‘‘ کے عنوان سے کیا جسے مجلہ ’’تحقیق‘‘، شعبۂ اردو، سندھ یونی ورسٹی نے شائع کیا: جولائی ۲۰۱۴ء)۔

یہ وہ روایت تھی جو شیرانی صاحب سے منسلک ہے اور جو کم از کم اردو تحقیق کے زمرے میں اُن ہی سے منسوب ہے، بعد میں بھی اُن کے مطالعاتی اور تحقیقاتی کارنامے اس قدر کثیر ہیں، جن کا بیان اس وقت موضوع میں شامل نہیں لیکن شیرانی صاحب نے اپنے لاہور کے قیام اور پنجاب یونی ورسٹی سے منسلک رہنے کے دوران جو ادب اور علم کی خدمت کی اور مطالعات اور تحقیقات کی جو نہج قائم کی، اُس نے اردو زبان میں وقعت و معیار کو جو بلندی عطا کی، وہ ایک مثال ہے۔

دیگر متنوع کاموں کے علاوہ اُن کے تحقیقی مقالات اور اُن کی مرتّبہ مخطوطات کی فہرستوں نے اردو میں مطالعات اور تحقیقات کے ناگزیر مآخذ پیش کیے جو اردو تحقیقات کے فروغ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی روایت نے پنجاب یونی ورسٹی اور لاہور کے علمی و تحقیقی حلقوں میں اور اُن کے شاگردوں کی وسیع تر تربیت کا کام کیا، جس کی ایک مثال مظہر محمود شیرانی بھی ہیں کہ جو اپنے جدامجد، دادا کے خاندان کے چشم و چراغ ہی نہیں، علمی مطالعات میں اُن کا ایک ورثہ بھی ہیں۔

مظہر محمود شیرانی نے اپنے والد یا معروف و ممتاز شاعر اختر شیرانی سے یقینا ادبی و علمی مزاج اخذ تو کیا ہے لیکن دراصل تحقیقات میں اپنے دادا کے ورثے کے امین ثابت ہوئے ہیں جس کا ایک نمایاں اظہار ان کا وہ فیصلہ بھی ہے جس کے تحت انھوں نے اپنے ایک منضبط مطالعے برائے حصولِ سند پی ایچ ڈی کے لیے اپنے دادا کو موضوع بنانا اور اپنے کمالِ تحقیق کا ثبوت دینا بھی ہے۔ محمود شیرانی کوئی ایسا موضوع نہ تھا کہ جس کے کام اور جس کی توجہات اور موضوعات کو ایک مبسوط سے مبسوط مقالے میں سمیٹا جاسکتا اور اسے محض ایک سندی مقالے کا موضوع بنایا جاسکتا تھا لیکن مظہر محمود شیرانی نے یہ کر دکھایا۔

اسی عمل سے موضوع یا شخصیت اور اُس کے کاموں سے واقفیت اور عبور اور اُس کے متعلقات پر اُن کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے، پھر یہ تو محمود شیرانی کی زندگی کے احوال اور علمی و مطالعاتی خدمات کا مطالعہ تھا جس میں موضوع سے متعلق گہرائی و گیرائی کا ایک دیانت دارانہ و مخلصانہ مثالی نمونہ دیکھا جاسکتا ہے لیکن ان سے بڑھ کر اس کا اگلا اور شاید زیادہ بڑا اور اہم کام محمود شیرانی کے تمام تر مقالات کی تلاش و جستجو نہایت سلیقے و محنت اور کدوکاوش سے اُن کی اشاعت کے لیے موجودہ تقاضوں کے مطابق اُن کی جمع و ترتیب اور ساتھ ہی محمود شیرانی کے احوال و آثار کا کلی احاطہ اور مطالعہ و تجزیہ مظہر محمود کے روایتی یا خاندانی پس منظر کا ایک واضح اثر تو نظر آتا ہے لیکن بعد میں یا حالیہ برسوں میں شخصی خاکہ نگاری اور ادبی دنیا کو ’’کہاں سے لائوں اُنھیں‘‘، ’’جانے کہاں بکھر گئے‘‘، ’’بے نشانوں کا نشاں‘‘ اور ’’کہاں گئے وہ لوگ‘‘ جیسے مجموعے دیے جو اُن کے مذکورہ علمی و ادبی شاہ کاروں سے قطع نظر اُن کی انسان سے محبت کے وہ مظاہر ہیں جن کے تحت اُنھوں نے اپنے قریب و دور کے انسانوں کو اپنے زاویۂ نظر سے دیکھا اور اُن سے اپنی عقیدت و محبت کو محسوس کرکے اُن کا دل نشیں پیرائے میں اظہار بھی کردیا۔

اپنے علمی و مطالعاتی کاموں کی یہ نوعیت تو مظہر محمود شیرانی کے ساتھ مخصوص رہی لیکن ایک وصف اُن کی قابلیت و لیاقت کا یہ بھی تھا کہ اُنھیں فارسی زبان پر بھی خاصا عبور مہارت کی حد تک تھا، چناںچہ جب گورنمنٹ کالج، لاہور گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی کی مجلسِ تحقیق و تالیف، شعبۂ فارسی میں ایک منصوبہ ’’لغتِ جامع، جی سی یو‘‘ تشکیل پایا تو اس مجلس میں مظہر محمود شیرانی کو بھی بالالتزام شامل کیا گیا جس میں اُنھوں نے نہایت اخلاص و تن دہی سے اس منصوبے کی تکمیل میں حصہ لیا۔ یہ ایک بڑا منصوبہ تھا جو پانچ جلدوں میں مکمل ہوا، جس کی تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

اس مجلس نے یہ کام شعبے میں باہمی مشاورت سے انجام دیا، جس کے لیے مقررہ دنوں میں یہ مجلس اپنا اجلاس منعقد کرتی جس میں سب ہی اراکین بشمول مظہر محمود شیرانی بھی شریک رہتے۔ ایک دو بار راقم کو اس مجلس میں بطور شاہد شرکت کا اعزاز حاصل ہوا ، جس کا ایک بڑا مقصد مظہر محمود شیرانی سے ملاقات بھی تھی۔ اس مجلس کے اجلاس سے پہلے یا بعد میں مظہر صاحب مجھے ملاقات سے باریاب فرماتے جس میں مجلس یا اس کالج کے دیگر اساتذہ بھی مجھ سے ملنے کی خاطر شریک رہتے۔ یہ ساعت ایک خوش گوار علمی محفل و مصاحبے کی صورت اختیار کرلیتی تھی۔

ڈاکٹر مظہر سے میری اوّلین ملاقات دسمبر ۱۹۷۸ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کے اورینٹل کالج کے کمرے میں ہوئی تھی جس میں زیادہ تر حافظ محمود شیرانی اور ریاست ٹونک کا علمی و ادبی ماحول اور رجال زیرِ گفتگو رہے۔ اس طرح یہ ملاقات میرے لیے یادگار اور بے حد معلومات افزا رہی، بعد میں لاہور ہی میں ڈاکٹر مظہر سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن یہ بھی میرے لیے خوش کن رہا کہ جب کبھی مظہر صاحب کراچی آتے تو کوئی موقع یہاں بھی ملاقات کا میسر آجاتا۔

کراچی میں اوّلین ملاقات شاید ۱۹۸۲ء میں میرے غریب خانے ہی پر ہوئی جب مخدومی حکیم محمود احمد برکاتی صاحب اُنھیں ملانے کے لیے لے آئے۔ اب وہ سب صحبتیں، جو اُن کے ساتھ گزریں، یاد آتی ہیں اور یادوں کا ناقابلِ فراموش سرمایہ ہیں۔ یہ سب عہد ماضی کی باتیں اور یادیں ہیں اور اب پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی