حضرت خولہ بنتِ ثعلبہ رضی اللہ عنہا (قسط نمبر 26)

August 01, 2021

خلیفۂ وقت، بوڑھی عورت کے سامنے

خلیفۂ دوم، امیرالمومنین، سیّدنا عُمر فاروقِ اعظمؓ ایک مرتبہ اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھی عورت نے اُنہیں رُکنے کا اشارہ کیا، جس پر آپؓ فوراً رُک گئے۔ سَر جُھکائے دیر تک اُن کی بات سُنتے رہے اور جب تک اُنھوں نے بات ختم نہ کرلی، آپؓ اسی طرح کھڑے رہے۔ہم راہیوں کو عجیب سا لگا۔ اُن میں سے ایک نے عرض کیا’’ امیر المومنین! آپؓ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اِتنی دیر روکے رکھا؟‘‘ اِس پر آپؓ نے فرمایا’’ تم جانتے بھی ہو، یہ کون ہیں؟

یہ خولہ بنتِ ثعلبہؓ ہیں۔ یہ وہ خاتون ہیں کہ جن کی شکایت سات آسمانوں پر سُنی گئی۔ اللہ کی قسم! اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتیں، تو مَیں کھڑا رہتا۔ بس، نمازوں کے اوقات میں ان سے معذرت کرلیتا۔‘‘ حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ یہ خاتون راستے میں حضرت عُمرؓ کو ملیں، تو آپؓ نے اُنھیں سلام کیا۔ وہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں’’اوہو، اے عُمرؓ! ایک وقت تھا، جب مَیں نے تمھیں بازار عکاظ میں دیکھا تھا، اُس وقت تم عمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چَراتے پِھرتے تھے۔ پھر زیادہ مدّت نہ گزری تھی کہ تم عُمر کہلانے لگے، پھر ایک وقت آیا کہ تم امیرالمومنین کہے جانے لگے۔

عُمرؓ! ذرا رعیّت کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے، اُس کے لیے دُور کا آدمی بھی قریبی رشتے دار کی طرح ہوتا ہے اور جو موت سے ڈرتا ہے، اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھو دے گا، جسے بچانا چاہتا ہے۔‘‘ اس پر جارود عبدیؓ، جو حضرت عُمرؓ کے ساتھ تھے، بولے،’’ اے عورت! تُو نے امیرالمومنینؓ کے ساتھ بہت زبان درازی کی ہے۔‘‘ حضرت عُمرؓ نے فرمایا،’’ اِنہیں کہنے دو۔ جانتے بھی ہو ،یہ کون ہیں؟ اِن کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سُنی گئی تھی۔ عُمرؓ کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔‘‘ (تفہیم القرآن، 340/5)

سلسلۂ نسب

حضرت خولہؓ بنتِ ثعلبہ کا تعلق مدینے کے مشہور قبیلے، خزرج سے تھا۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: حضرت خولہؓ بنتِ ثعلبہ بن اصرم بن فہد بن ثعلبہ بن غنم بن عوف۔ ان کا نکاح قبیلہ اوس کے سردار، حضرت عبادہ بن صامتؓ کے حقیقی بھائی، حضرت اوس بن صامت انصاریؓ سے ہوا۔

ظہار، جاہلانہ رسم

عرب میں جب شوہر اور بیوی کی لڑائی عروج پر پہنچ جاتی، تو شوہر غصّے میں بیوی کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ۔ جیسے ’’تُو میرے اوپر ایسی ہے، جیسے میری ماں کی پیٹھ۔‘‘ یعنی’’ اب تُو میرے اوپر حرام ہوچُکی ہے۔‘‘ اس طرح کے قول کو ’’ظہار‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ لفظ طلاقِ مغلظ سے بھی زیادہ سخت سمجھا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش تھی، مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔

حضرت اوس بن صامتؓ مزاج کے ذرا سخت تھے۔ ایک دن بیوی سے لڑائی ہوگئی اور غصّے میں آکر ’’ظہار‘‘ کے الفاظ استعمال کردیے، لیکن جب غصّہ اُترا، تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اب پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ حضرت خولہؓ پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نہایت پریشانی کے عالم میں رسول اللہﷺ کے پاس آئیں۔ آپؐ نے اُن کی پوری بات سُنی۔ اُس وقت تک اِس خاص مسئلے کے متعلق آنحضرتؐ پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی تھی، اِس لیے آپؐ نے قولِ مشہور کے موافق اُن سے فرما دیا ’’میری رائے میں تو تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئیں۔‘‘

وہ یہ سُن کر واویلا کرنے لگیں کہ’’ میری پوری جوانی اس شخص کی خدمت میں ختم ہوگئی۔ اب بڑھاپے میں اس نے مجھ سے یہ معاملہ کیا ہے، مَیں کہاں جائوں؟ میرا اور میرے بچّوں کا گزارہ کیسے ہوگا؟ میرے شوہر نے طلاق کا تو نام بھی نہیں لیا، تو پھر مجھے طلاق کیسے ہوگئی؟‘‘ حضرت خولہؓ نے آب دیدہ ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رحم کی التجا و فریاد کی۔ اللہ کے رسولؐ نے اُن کی یہ حالت دیکھتے ہوئے فرمایا،’’ دیکھو! تمہارے مسئلے سے متعلق مجھ پر ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں ہوا ہے۔‘‘ (معارف القرآن 332/8)۔

وحی کا نزول

حضرت خولہؓ کی حالت، اُن کے اندرونی دُکھ اور فکر کی غمّازی کر رہی تھی۔ ان کی فریاد و نالہ جاری تھا،’’ یارسول اللہؐ! مَیں اپنے شوہر کی ماں کیسے بن سکتی ہوں۔ اُس کی ماں تو صرف وہ عورت ہے، جس نے اُسے جنم دیا ہے۔ اے اللہ کے رسولﷺ! اگر دورِ جہالت کی یہ رسم ختم نہ ہوئی، تو مَیں اور میرے بچّے تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ میرا بوڑھا شوہر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پِھرے گا۔‘‘ خود حضورﷺ بھی اُن کی حالتِ زار دیکھ کر افسردگی کی کیفیت میں تھے۔ اُدھر عرشِ معلٰی پر اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ انسان کی شہہ رگ سے زیادہ قریب رہنے والے ربّ نے حضرت جبرائیل امینؑ کو حکم دیا کہ جائو اور میرے محبوبؐ کو یہ پیغام پہنچا دو،’’بے شک، اللہ تعالیٰ نے اُس عورت کی بات سُنی، جو آپؐ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کررہی تھی۔

اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سُن رہا تھا۔ وہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں، اُن کی بیویاں، اُن کی مائیں نہیں ہیں۔ اُن کی مائیں تو وہی ہیں، جنہوں نے اُن کو جَنا ہے۔ یہ لوگ سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں، لیکن اللہ معاف کرنے اور درگزر کرنے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ’’ظہار‘‘ کریں، پھر اپنی اِس بات سے رجوع کریں، تو اُنہیں چاہیے کہ ایک غلام آزاد کریں۔ اگر غلام آزاد نہ کر پائیں، تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھیں اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہوں، تو 60؍مسکینوں کو کھانا کِھلائیں۔‘‘(سورۂ المجادلہ144:58)

’’ قد سمع اللہ…‘‘

اُم المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں،’’ پاک ہے وہ ذات، جو ہر ایک کی آواز سُنتا ہے۔ مَیں اُس وقت رسول اللہﷺ کے پاس ہی موجود تھی، جب حضرت خولہ بنتِ ثعلبہؓ اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں، مگر اِتنے قریب ہونے کے باوجود میں اُن کی بعض باتیں نہیں سُن سکی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اُن سب کو سُنا اور فرمایا،’’ قد سمع اللہ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب التوحید)۔

کفّارہ کی ادائی

حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنتِ ثعلبہؓ کی فریاد پر جب آیاتِ مذکورہ اور کفّارے کے احکام نازل ہوئے اور شوہر سے دائمی مفارقت و حرمت سے بچنے کا راستہ نکل آیا، تو آنحضرتﷺ نے اُن کے شوہر کو بلوایا۔ دیکھا کہ وہ ضعیف البصر اور بوڑھے آدمی ہیں۔ آپؐ نے اُنھیں نازل شدہ آیات اور کفّارے کا حکم سُنایا کہ’’ ایک غلام یا لونڈی آزاد کردو۔‘‘ اُس نے کہا،’’ یہ میری قدرت میں نہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ پھر دو ماہ کے روزے رکھو۔‘‘ اُس نے کہا،’’ قسم ہے اُس ذات کی، جس نے آپؐ کو رسولِ برحق بنایا، اگر مَیں دن میں دو، تین مرتبہ کھانا نہ کھائوں، تو میری نگاہ بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کِھلاؤ۔‘‘ اُس نے عرض کیا،’’ یہ بھی میری قدرت میں نہیں، بجز اس کے کہ آپؐ ہی کچھ مدد فرمائیں۔‘‘ آپؐ نے اسے کچھ غلہ عطا فرمایا، پھر کچھ دوسرے اصحابؓ نے بھی مدد کی۔ اس طرح ساٹھ مسکینوں کو فطرے کی مقدار دے کر کفّارہ ادا ہوگیا۔ (معارف القرآن، جلد ہشتم صفحہ337)

نبیٔ برحقﷺ کا عظیم الشّان معجزہ

اللہ کے حبیبﷺ، توحیدِ حق کی شمع لے کر دنیا کے اندھیروں کو اُجالوں میں تبدیل کرنے کا عزم لیے غارِ حرا سے نکلے، تو اکیلے تھے۔ گھر پہنچے تو وفا شعار اہلیہ کو شریکِ سفر ہونے کے لیے منتظر پایا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ بھی ہم سفر ہوگئے۔راستہ پُرخار، سفر ناہم وار، لیکن عزم جوان تھا۔ اپنوں کی دشمنیاں، رقابتیں، منافقتیں، تحقیر و استہزا، جور وجبر، ظلم و زیادتی، دشنام طرازی، مارپیٹ، جسمانی تکالیف، ذہنی اذیتیں…! غرض کہ راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو اپنی ٹھوکروں سے ہٹاتا یہ قافلۂ سرفروشاں اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا اور پھر جَلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ جب نیلے آسمان نے وہ رُوح پرور منظر دیکھا کہ اس شمعِ حق ؐکے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار پروانے فدا ہونے کو تیار ہیں۔ بہت مختصر مدّت میں اِتنی بڑی تعداد میں صحابہؓ کا وجود رسول اللہؐ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشّان معجزہ ہے۔

یہ وہ جاں نثارانِ مصطفیٰ ؐ ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ؐ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ریاستِ مدینہ کی سرحدیں 12؍لاکھ مربع میل تک پھیلا دیں۔ ان ہی صحابہؓ کے ذریعے اللہ نے اپنے محبوب نبیؐ کے عالم گیر پیغام کو اس کی اصل رُوح کے ساتھ خطۂ ارض کے ہر گوشے میں پھیلا دیا۔ یہ وہ رفقاء ہیں کہ جن کی تربیتِ خاص، اللہ کے نبیؐ نے مکّے کے دارِ ارقم سے شروع کی اور پھر مدینے میں صفّہ کا چبوترا پہلی اسلامی یونی ورسٹی کا رُوپ دھار گیا۔ یہ سب برگزیدہ صحابہؓ سراپا علم و ادب اور پیکرِ تقویٰ تھے۔ اللہ کے نبیؐ کے محبوب، رفیق اور جاں نثار ساتھی تھے اور جو اللہ کے محبوبؐ کو پیارا ہو، وہ اللہ کو کیوں نہ پیارا ہوگا؟ یہی وہ رشتۂ خاص ہے کہ جب کوئی صحابیؓ یا صحابیہ ؓمعبودِ برحق کے حضور التجا و فریاد کرتا، تو ربّ العالمین بھی اُن کے ہاتھوں کو خالی نہ لَوٹاتے۔

ایسے ہی بلند و بالا مرتبے پر فائز ایک صحابیہ، حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ بھی ہیں، جو دورِ جاہلیت کی ہزاروں سال پرانی، فرسودہ اور ظالمانہ رسم کے خاتمے کا باعث بنیں۔ بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا، ایسی بے ہودہ اور شرم ناک بات ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ زمانۂ جاہلیت میں تو یہ عام بات تھی کہ شدید غصّے، جنون یا نشے کی کیفیت میں بیوی کو ظہار کردیا کرتے تھے، لیکن بعد میں جب ہوش آتا، تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے آشیانے کو تباہ کر ڈالا۔ اب بیوی اپنی رہی، نہ بچّے اور نہ ہی گھر رہا۔مالکِ ارض و سماء کو اپنے محبوبﷺ کی اُمّت سے اس گھنائونی رسم کو ختم کرنا تھا، لہٰذا ، حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے واقعے میں اِس معاملے میں احکامات نازل فرمائے۔

مزید معلومات

حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ نہایت ذہین و فطین اور بلند مقام و مرتبے کی مالک تھیں۔ ان کے حوالے سے معبودِ برحق نے وحی نازل فرمائی، لیکن ظہار کے اِس واقعے کے علاوہ اُن کے بارے میں مزید معلومات دست یاب نہیں۔اُن کے شوہر، حضرت اوس بن صامتؓ نے مختلف غزوات میں حصّہ لیا اور 34؍ہجری میں رملہ (فلسطین) میں وفات پائی۔ اُس وقت اُن کی عُمر 85؍سال تھی۔

حاصلِ مطالعہ

حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے تذکرے میں ظہار جیسی جاہلانہ رسم سے متعلق احکامات کے علاوہ مزید دو اہم باتوں کے بارے میں یاد دہانی کروائی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ ہر شخص کے ساتھ ہر وقت، ہر جگہ موجود ہے۔ اسے ہر ہر لمحے کا علم ہے۔ وہ ہر ایک کی سُنتا ہے۔ انسان کی دُعا و فریاد اگر اُس کے حق میں ہوتی ہے، تو اُسے شرفِ قبولیت بخش دیا جاتا ہے اور اُس کی حاجات پوری کردی جاتی ہیں، لیکن اگر اُس وقت اُس کے لیے بہتر نہیں ، تو اُسے مناسب وقت تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اُس شخص کے مفاد میں نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کی بجائے اُس کی کوئی اور دُعا قبول فرما لیتے ہیں۔

دوسری بات رعایا کے بارے میں حاکمِ وقت کی ترجیحات سے متعلق ہے۔ حکم رانوں کا فرضِ اوّلین ہے کہ عوام کے لیے اپنے دروازے کُھلے رکھیں۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شکایات کا ازالہ کریں اور اُن کی سفارشات کی روشنی میں حکومت کی پالیسیز کا تعیّن کریں۔