بےنیازی کی آخری حد

July 28, 2021

ننھی پری کھیل رہی تھی۔ اچانک وہ لڑکھڑائی اور اس کا سر شیشے کی نوکدار میز سے ٹکرانے ہی لگاتھا۔ پلک جھپکنے میں، باپ نے ہاتھ بڑھایا اور اسے زخمی ہونے سے بچا لیا۔ وہ اسی طرح کھیلتی رہی۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اسے کس تکلیف سے بچا لیا گیا ہے۔ وہ شکر گزار بھی نہیں تھی۔ میں سوچتا رہ گیا۔ اس زمین پر خدا ہم انسانوں کو کس کس تکلیف سے بچاتا ہے، ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ کون ہے جو پل پل انسان کو اس طرح آکسیجن مہیا کرتا ہے جیسے بچے کے منہ میں ماں خوراک ڈالتی ہے۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کان کے درمیان ایک ایسا نظام خدا نے نصب کر رکھا ہے جس کے ذریعے انسان اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اس میں خرابی ہو توآدمی گرتا، لڑکھڑاتا رہتا ہے۔ وہ تیزی سے گردن بھی نہیں موڑ سکتا۔ اسے چکر آتے رہتے ہیں۔ ایک بیمار شخص ہی اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔

ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہمارے جسموں میں ہزاروں کلومیٹر طویل خون کے پائپ موجود ہیں اور ہزاروں کلومیٹر طویل Nerves۔ یہ آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتیں۔ یہ جسم کے ایک ایک خلئے تک خون کے ذریعے آکسیجن اور غذا لے کر جاتے ہیں۔ انہی Nervesکے ذریعے ہم اپنے جسموں کو حرکت دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے دماغوں میں خلیات کا باہمی ربط کرانے والے کیمیکلز خارج ہونا بند ہو جائیں تو ہماری زندگیاں جہنم بن سکتی ہیں۔ دنیا کی کوئی چیز ایسے شخص کو خوشی نہیں دے سکتی۔ ہر جاندار نے اپنی زندگی میں آکسیجن کا جو ایٹم استعمال کرنا ہے، گندم کا جو دانہ کھانا ہے، اس پر اس کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اگر یہ مہر موجود نہیں تو دولت کے باوجود، غلے کے بھرے ہوئے گوداموں کے باوجود، آپ کا جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دے گا۔ بعض والدین بےبسی سے ہاتھ جوڑتے رہتے ہیں لیکن بچّے کچھ نہیں کھاتے۔ بےشمار غربا پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔

بھاری آب و ہوا (Atmosphere)اور سمندروں سے محروم چاند پر جہاں دن میں درجۂ حرارت مثبت 100درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے، وہاں رات کویہ منفی 100ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ زمین کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے خدا نے مقناطیسی میدان بنا رکھے ہیں، جو سورج کی تابکار شعاعوں سے ہمیں بچاتے ہیں۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں اوزون کی حفاظتی تہہ بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ سب حفاظتی تہیں خدا نے زندگی کی حفاظت کے لئے بنائیں۔ سب جانداروں کو آنکھیں، کان، ناک، سمیت حسیات دیں، جن سے ڈیٹا اس کے دماغ تک جاتا ہے اور وہ زندگی گزارنے، اپنی خوراک حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ کبھی کسی ایسے شخص سے ملئے، جس کے گردے خون صاف کرنے سے انکاری ہوں، آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہر امیر اور ہر غریب کو خدا نے ایک قدرتی مدافعاتی نظام دیا۔ یہ نظام اگر نہ ہوتا تو پوری زندگی ہم بیمار ہی رہتے۔ اس نظام کا پوچھنا ہو تو کسی ایسے شخص سے پوچھئے، جس نے گردہ یا جگر ٹرانسپلانٹ کرایا ہو۔

خدا نے دماغ کو اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ بڑے سے بڑا صدمہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مندمل ہو جاتا ہے۔ کبھی ایک لمحہ جس کی جدائی گوارا نہ کی جاتی،آج اس کی موت کی خبر بھی انسان کو رلاتی نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک بار کسی حادثے کا شکار ہو جانے والا ساری زندگی اس شاک سے باہر نہ نکل سکتا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حادثات ہوتے ہی کیوں ہیں؟ جواب، آزمائش کے لئے۔ یہ دنیا آزمائش کیلئے بنی ہے۔ جتنا بڑا انسان ہوتا ہے، اسی حساب سے اس پر آزمائش ڈالی جاتی ہے۔ کئی لوگ تو طویل بیماری کے باوجود خدا کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ کئی معمولی تکلیف پر ہمت ہار جاتے ہیں۔

5ارب مخلوقات، کرّئہ ارض کی تاریخ میں اندازاً 5ارب مخلوقات زندگی گزار چکی ہیں۔ ان 5ارب میں سے خدا نےانسان کو عقل دی۔ ہم نے اپنا، کرۂ ارض کا، کائنات کا جائزہ لیا۔ خدا کو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہمارے پاس تھا اور وہ علم اور عقل تھی۔ جب ہم ہر چیز کا جائزہ لے چکے تو ہم نے کہا: اس شرط پہ ہم خدا کو مانیں گے کہ وہ ہماری ذاتی زندگیوں میں مداخلت نہ کرے۔ ہمیں ہم جنس پرستی اور شادی کے بغیر ساتھ رہنے کی آزادی دے۔

خدا بےنیاز ہے۔ وہ بادشا ہ ہے، ہم سب فقیر۔ خدا کبھی کسی سے درخواست نہیں کرتا کہ حضور مجھ پر ایمان لے آئیے۔ اگر اسے آپ کے ایمان کی اس قدر ضرورت ہوتی تو اپنی بےشمار مخلوقات کی طرح، آپ پر بھی ایمان کو وہ جبر کر دیتا۔ اس نے آپ کو آزادی دی۔ چاہو تو مجھ پر ایمان لائو، چاہو تو انکار کر دو۔ دنیا کا جواز باقی رکھنے کے لئے تو صرف ایک مسلمان کافی ہے، جو اللہ کا نام لینے والا ہو۔ جو خدا پر واقعی ایمان رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ خدا مکمل حسن ہے اور سراپا علم۔ وہی تو اس قابل ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے۔ وہ اسے سانس لینے، کھانا کھانے، توازن برقرار رکھنے، مناسب درجۂ حرارت فراہم کرنے اور سورج کی تابکاری سے محفوظ رہنے کا بندوبست تو خوب کر دیتا ہے لیکن ایمان اور عبادت کو جبر نہیں کرتا۔ مخلوقات کی حفاظت کے لئے اس نے ماں باپ کے سہارے تخلیق کیے اور ان کے دل میں اولاد کی محبت ڈالی لیکن وہ مانگتا کچھ نہیں۔ مخلوق کو اس نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے، چاہو تو مجھے مانو اور چاہے تو میرا انکار ہی کر دو۔ کوئی اسے مانے یا نہ مانے، زندگی برقرار رکھنے کے لوازمات اس تک پہنچتے رہیں گے۔ بےنیازی کی آخری حد!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)