ہماری سیاست کا اونٹ اور کشمیر

August 03, 2021

ہمارے دارالحکومت کو نہ جانے کس دشمن کی نظر لگ گئی کہ ہر طرف خوف اور وحشت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آئے دن سنسنی خیز وارداتیں، ہوش ربا اسکینڈل، پُراسرار واقعات کیڑے مکوڑوں کی طرح جنم لے رہے ہیں۔ داسو ڈیم پروجیکٹ پر کام کرنے والے 9چینی باشندوں کی ہلاکت، بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں، قربانی کی عید کے آگے پیچھے راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کا سامنے آنا، عثمان مرزا لڑکا لڑکی تشدد کیس، افغان سفیر کی بیٹی کی پُراسرار گمشدگی کے بعد پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اور پھر سابق سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کا ایک بااثر مالدار گھرانے کے بگڑے چشم و چراغ کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں قتل ایسی جھلکیاں ہیں جو بگڑے حالات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اسلام آباد جو کبھی امن و سکون کا گہوارہ کہلاتا تھا، آج کل بھوت بنگلہ بنا نظر آرہا ہے۔ عمرانی سرکار کو آئے تین برس گزر گئے۔ ابھی تک حتمی طور پر یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ ہم امریکی بلاک کا حصہ ہیں یا چینی بلاک کا۔ کبھی ہم افغانستان میں امن کے ٹھیکیدار بنتے ہیں تو کبھی گھاٹے کے سودے سے مکر جاتے ہیں۔ سرکار کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ جب خانِ اعظم ازبکستان کے دورے پر جاتے ہیں تو ایک چھ ملکی نیا بلاک تشکیل دینے کا اعلان کر آتے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار کوکشمیریوں کا قاتل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے کردار کو ثبوتوں کے ساتھ سامنے لانے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب روس کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کا ذکر آتا ہے توفرماتے ہیں کہ بھارت کو وسط ایشیائی ریاستوں تک براستہ افغانستان رسائی بھی دی جائے گی۔ سرکار پاکستان بھارت کے درمیان موجودہ حالات میں اصل مدعا یہی تو ہے کہ بھارت کو افغانستان پرکنٹرول اوروسط ایشیائی ریاستوں تک اپنا مال بلا کسی روک ٹوک، جانچ پڑتال پاکستان سے گزار کر ان ممالک میں فروخت کرنے کی اجازت چاہئے۔ کپتان بھی کمال کرتے ہیں، جب آزاد کشمیرمیں انتخابی جلسے سے خطاب کرنے جاتے ہیں تو کشمیری بھائیوں کو ایک کی بجائے دو آپشن دے آتے ہیں کہ پاکستان یا آزادی؟ ایک طرف مودی نے کشمیریوں کا قتل عام شروع کررکھا ہے۔ انہیں بنیادی حقوق سے محروم کرکے ان کی تمام آزادیاں سلب کر لی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرکے ریاستی قوانین کو تہس نہس کردیا ہے تو دوسری طرف آپ نے ”آزادی“ کے نام پر خود مختار کشمیر کا نیا شوشہ چھوڑ دیا، پھر بڑے معصومانہ انداز میں ہم ہی سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کس نے کی؟ سرکار کمال ہی ہوگیا اگر آپ کویاد نہیںآرہا تو ہم ہی یاد دلائے دیتے ہیں کہ یہ بے وقت کی راگنی تحریک انصاف کے وفاقی وزراءصاحبان نے ہی انتخابی مہم کے دوران شروع کی جن کے ارشادات پر مبنی ویڈیوز بھی موجود ہیں کہ وہ کشمیریوں کا ضمیر نوٹوں سے خریدنے کی کوشش کرتے پکڑے گئے۔ سرکار اگر انصاف کا بول بالا ہوتاتو کم از کم اتنا تو ضرور کرتے کہ چیف الیکشن کمشنر آزادکشمیر کے لکھے احتجاجی خط کا جواب ہی دے دیتے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے توایسے وزراء کو انتخابی مہم پر جانے سے ہی روک لیتے تاکہ آپ کو بعد میں یہ سوال ہم سے نہ پوچھنا پڑتا۔ خیر اب تو آزاد کشمیر میں بسنے والوں نے بھی آپ کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور پاکستان میں آنے والی تبدیلی کو آزادکشمیر میں بھی قبول کراکے یہ ثابت کردیا ہے کہ خان اعظم جو کہتے ہیں کر کے دکھاتے ہیں اور وہی سب سے بہترین چوائس ہیں۔ اس کشمیری مینڈیٹ پر تحریک انصاف کے گنڈا پور صاحب کو خصوصاً مبارکباد پیش کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے جس جذبے سے کشمیریوں کی محبت پر کھلے عام نوٹ نچھاور کئے اس کے ثمرات سامنے آگئے ہیں اور آنے والے دنوں میں خونی لکیر کے آر پار اس کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے اور یہ نعرہ تیزی سے بلند ہوگا، پاکستان یا آزادی؟ اب یہ ذمہ داری بھی خانِ اعظم کے کندھوں پر آن پڑی ہے کہ وہ مودی کا مکّو ٹھپنے کے لئے جتنا جلد ممکن ہو یہ ریفرنڈم کرا ہی دیں لیکن یہ بات بھی یقینی بنائیں کہ کشمیریوں کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالنے کا حق ضرورملے اور اس ریفرنڈم کے نتائج بھی دل سے قبول کئے جائیں لیکن اگر کشمیریوں نے یہ نعرہ لگا دیا کہ ”ہم کیا مانگیں ... آزادی“ تو پھر کیا ہوگا؟ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج پر یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ہواؤں کا رُخ ایسے بدلنے لگے کہ تحریک آزادی کشمیر کے ہر اول دستے کے کمانڈر سابق امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی ہی میدانِ جنگ میں اپنے مخالف تحریک انصاف کے امیدوار کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور دوسری طرف اداکارہ میرا تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیں تو سمجھ آجانی چاہئے کہ ہماری سیاست کا اونٹ کس بازار میں کھڑا ہے؟