کتابِ دل، حسابِ دل

September 24, 2021

اردو ادب میں ایک اور سفرنامے کا اضافہ ہوا اور خوب ہوا۔ ہماری زبان میں حجازِ مقدس کے جتنے سفر نامے لکھے گئے ہیں دنیا کے کسی خطے کے نہیں لکھے گئے ہو ںگے۔اس بار بھی وہی عقیدت واحترام میں ڈوبی ہوئی سر گزشت ہے مگر اس کا انداز جدا ہے۔ یہ سفر نامہ برطانیہ کی سرکردہ شاعرہ، افسانہ نگار اور استاد نجمہ عثمان نے لکھا ہے اور کما ل یہ کیا ہے کہ اوروں سے جدا اور دوسروں کے اسلوب سے ہٹ کر لکھا ہے۔’کتابِ دل‘ کے عنوان سے ان کی کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے اورپچھلے دنوں لندن میں اس کی تعارفی تقریب بھی ہوئی۔

میں نے اردو کی قدیم کتابوں کی بہت سیر کی ہے اور شبلی نعمانی کے ’سفر نامہ روم ، مصر وشام ‘ سے ذاکر علی خاں کی ’مرحبا الحاج‘تک کیا کیا نہیں دیکھا ۔ ان دو بے مثال کتابوں کے نام ذہن میں یو ں رہ گئے کہ دونوں فقید المثال تھیں۔ شبلی نعمانی نے اپنے ۱۸۹۲ء کے سفر نامے میں مسلمانوں کی اخلاقی حالت بیان کرتے ہوئے قلم کو آزاد چھوڑدیا اور جو دیکھا، لکھ دیا۔ یہ صفت کم ہی مصنفوں میں پائی جاتی ہے خاص طور پر مقدس سرزمینوں کے بیان میں۔ ان سفر ناموں میں اکثر نہیں، ہر مرتبہ ہی عقیدت کا رنگ اتنا گہر ا ہوتا ہے کہ حقیقت اس میں کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔ علی گڑھ کے ذاکر علی خاں کا تو ذکر ہی کیا۔ ویسا سفر نامہ پھر کوئی نہ لکھ سکا۔ انہوں نے ’مرحبا الحاج ‘ میں حج کے دوران پیش آنے والے شگفتہ اور پر لطف واقعات کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور تقدس اور احترام کا دامن ایک بار بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ان سب کے بعد نجمہ عثمان کی ’کتابِ دل‘ کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا کہ یہ ان کا سفر نامہ نہیں، روزنامچہ ہے جس میں ان لوگوں کی پوری طرح رہنمائی کردی گئی ہے جو اس کے مطالعے کے بعد فریضہ حج ادا کریں گے۔ نجمہ نے مقدس سرزمین کے بیان میں عقیدت اورحقیقت کی ایسی آمیزش کی ہے کہ کتاب کا قاری اس کو احترام سے بھی پڑھے گا اور اہتمام سے بھی۔انہوں نے چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے لے کر بڑی بڑی شادمانیوں تک سارے جذبات اور احساسات کو کچھ ایسی ترتیب سے چن دیا ہے کہ اس پر متحرک فلم کا گمان ہوتا ہے، اس لئے اول سے آخر تک کتاب کی دل چسپی میں کہیں بھی کمی نہیں آتی۔

حجازِ مقدس کے قدیم سفر ناموں کو پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ لوگ کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرتے تھے۔ ہم سنا کرتے تھے کہ حج سے واپس آکر وہاں کی صعوبتوں کا ذکر نہ کرو۔ ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ حج کی سختیاں زائرین کے ثواب میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔پرانے دنوں میں وہاں نہ دل کش منظر تھے نہ باغ و بہار کے نظارے۔ بس جو کچھ تھا وہ اس سرزمین کے ذرے ذرے سے زائرین کی بے پنا ہ عقیدت کا بیان تھا جس میں کہیں کہیں مغالطےکی رنگ آمیزی بھی ہوتی تھی جو ایک فطری کیفیت تھی جس کو بیان کرنے کے لئے لکھنے والے کیسے کیسے اسلوب اختیار کرتے تھے۔

وہ دن تو کبھی کے رخصت ہوئے۔ اب فریضہ حج کے انداز بدل رہے ہیں اور مجھے اس سفر نامے کا انتظارہے جس میں ان نئے طور طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ اب مقدس سرزمین کا ’فائیو اسٹار سفر‘ ہونے لگا ہے۔ شاندار ہوٹل کھل گئے ہیں ، ساری زحمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ بھاری رقم دیجئے اور فریضے کا لطف اٹھائیے۔اپنے شب و روز آرام دہ کمروں میں گزارئیے ، ارکان ادا کرانے کے لئے رہنما حاضر رہیں گے۔ جہاں رات خیموں میں گزاری جاتی ہے وہاں بھی فائیو اسٹار کیبن آراستہ ہیں۔ہوٹل سے خانہ کعبہ تک جانے کے لئے زیر زمیں راستے بن گئے ہیں جو ائر کنڈیشنڈ ہیں۔ غرض یہ کہ ہر قیمت کے پیکیج دستیاب ہیں ، جتنا گُڑ ڈالیں گے،اتنا ہی میٹھا سفر ہوگا۔نجمہ عثمان کے روزنامچے کے اسلوب پر اپنی ہی بات یاد آتی ہے کہ اب لوگ اپنی روز مرہ ڈائری نہیں لکھتے، روزنامچے لکھنے کا رواج یکسر جاتا رہا ہے۔ سنہ اٹھارہ سو ستاون کی تاریخی بغاوت ِ ہند کی روداد لکھنے میں اس وقت کے بزرگوں کے لکھے ہوئے روزنامچے اور خطوط ہی سب سے معتبر ذریعہ بنے اور ہندوستان کا قومی آرکائیو جو پرانی کتابیںخریدا کرتا تھا اب صرف بزرگوں کی ڈائریاں لیتا ہے اور خطوط کی بھی اچھی قیمت مل جاتی ہے۔

اس پر یا د آیا کہ میں اکثر ندامت محسوس کرتا ہوں کہ زندگی میں ایک سے زیادہ مرتبہ ایسے مرحلے آئے جب میں نے ڈائری لکھنی شروع کی ہوتی تو کیسی شاندار کتابیں بن جاتیں لیکن میں نے وہ زمانے یوں ہی جانے دئیے۔سنہ پچاس میں جس روز میں نے بسم اﷲ پڑھ کر اٹاری کی سرحد پار کرکے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا ،کاش اس روز سے ڈائری لکھنی شروع کی ہوتی۔ سنہ ۱۹۵۷ء جس روز اخبار کی دنیا میں قدم رکھا تھا وہ ڈائری شروع کرنے کا کیسا اچھا لمحہ تھا۔ ۷۲ ء میں ترک وطن کر کے برطانیہ میں آباد ہونے اور ریڈیو سے وابستہ ہونے کے دن ایسے تھے کہ روزنامچہ شروع ہو جاتا تو کس کمال کی کتاب وجود میں آتی مگر شاید اس وقت احساس نہ تھا کہ زندگی کے آنے والے دن کتنے واقعات اور کتنی کہانیوں کو جنم دیں گے۔ اب صرف یاد داشت پر گزارا ہے جس میں قدامت کی بو باس شامل ہوگئی ہے۔

ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے جب پورے کرہ ارض پر نہایت مہلک وبا پھوٹ پڑی، اس وقت میں نے احباب کو مشورہ دیا تھا کہ روزنامچہ لکھنا شروع کریں۔نہیں معلوم کسی کے قلم نے حرکت کی یا نہیں،خود میں نے مسلسل کئی یاد داشتیں لکھیں لیکن ان میں وہ روزنامچے والی بات کہاں۔نجمہ عثمان نے اپنی تازہ کتاب کے ذریعے یہ راہ دکھائی ہے کہ عبارت آرائی کا ایک اسلوب یہ بھی ہے،اسے اختیار کرنے والے فائدے ہی میں رہیں گے کیونکہ تاریخ نویسی بھی کار خیر ہے ۔آنے والے زمانوں کے لئے اپنے وقت کی شہادتوں کو کاغذ پر اتارکر چھوڑ جانے کا بھی اتنا ہی ثواب ہے جتنا کسی بھی کار ِ خیر کا۔