• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں اور گورننس کا بہت بُرا حال اور ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے، کہا کرتے تھے کہ میں انہیں رُلائوں گا۔ اُن کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو رلانا تھا۔ 

وہ روئے یا نہیں اس پر بات پھر کبھی سہی لیکن یقین جانیں حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں، مہنگائی، ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی ریکارڈ گراوٹ ان سب عوامل نے کم از کم عوام اور بالخصوص غریب کو رلا کر رکھ دیا۔ 

ملکی معیشت پر بات کریں تو سوچ کے ہول اُٹھتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا اور اگر اس اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی پاور کا معاشی طور پر گراوٹ کا یہ سفر اسی تیزی سے جاری رہا تو ہماری کیا حالت ہو گی؟ خان صاحب نے جو وعدے کیے تھے،حقیقت میں سب اُس کے برعکس ہو رہا ہے اور صورتحال ایک ڈراؤنے خواب کی سی ہو رہی ہے۔ 

جو کوئی پندرہ بیس ہزار کماتا ہے اُس کو تو بھول ہی جائیں کہ اُس کا کیا حال ہو گا، اب تو پچاس ساٹھ ہزار کمانے والے کا بھی بُرا حال ہے۔ غربت میں اضافہ ہو چکا، مڈل کلاس کے لئے بھی گزر بسر کرنا بہت مشکل ہو چکا۔ 

کچھ عرصہ قبل میں نے ایک دہاڑی دار سے پوچھا کہ گزارا کیسے ہو رہا ہے تو کہنے لگا کہ تین چار سال پہلے دکان سے گھر کے لئے ایک مہینے کا سودا سلف کوئی چھ سات ہزار روپے کا آ جاتا تھا جو اب کم از کم سولہ سترہ ہزار روپے کا آتا ہے۔ اس خرچہ میں نہ دودھ شامل ہے نہ دوسرے اخراجات، کوئی بیمار پڑ جائے تو مصیبت ہی پڑ جاتی ہے کہ علاج کیسے کروائیں گے؟ 

مکان کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل تو ویسے ہی سب کچھ لے جاتے ہیں۔

 حکومت ہے تو کہتی ہے سب کچھ پچھلی حکومتوں کی پالیسیوں اور اُن کی چوری اور ڈکیتیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر چور ڈاکو تو اس ملک کے غریب کے لئے بہتر تھے کہ جن کے دور میں چینی، آٹا، دالیں، گھی سب کی قیمتیں آج سے آدھی تھیں، پٹرول بھی سستا تھا، بجلی اور گیس بھی سستی تھی۔ 

تبدیلی والوں کی حکومت آنے کے بعد تو مہنگائی کم ہونی چاہئے تھی، گیس بجلی، پٹرول سستا ہونا چاہے تھا لیکن ایسا کیا ہوا کہ چور ڈاکو چلے بھی گئے لیکن تبدیلی والے ’’ایمانداروں‘‘ نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ غریب غریب تر ہو گیا، غربت پہلے سے بڑھ گئی، نوکریاں ملنے کی بجائے ہاتھ سے جانے لگیں۔ جب ملکی معیشت کی بات کریں تو قرضے پاکستان کی تاریخ میں اتنے نہیں بڑھے جتنے پی ٹی آئی کی حکومت کے تین برسوں میں بڑھ چکے ہیں۔

گردشی قرضہ جو تین سال پہلے کوئی بارہ سو ارب روپے تھا، وہ دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکا۔ ملکی معیشت ایک ایسے رخ کی طرف تیزی سے گامزن ہے جہاں اس کی وجہ سے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، اداروں سب کی آنکھ کھل جانی چاہیے۔ 

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کے وزراء چور چور ڈاکو ڈاکو کی گردان بند کریں۔ اپوزیشن کو اپنے ساتھ بٹھائیں اور معیشت پر ایک متفقہ چارٹر سائن کریں۔ حکومت اور بالخصوص عمران خان کو اپوزیشن کے حوالے سے اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔ 

اس ملک کی خاطر، عوام کی خاطر ڈوبتی معیشت کو سنبھالنا سب سے اہم ہے اور اس معاملے پر سیاست سے بچنے کے لئے معاشی پالیسیوں پر قومی اتفاق رائے بہت ضروری ہے۔ 

معیشت اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے جس کے لئے نیب کو نکیل ڈالنی ہو گی، اشاروں اور دبائو پر جھوٹے مقدمات چاہے سیاستدانوں کے خلاف ہوں، سول افسروں یا کاروباری افراد کے خلاف، یہ تماشہ بند کرنا ہو گا۔ جس نے چوری کی، ڈاکہ ڈالا اُسے ضرور پکڑیں لیکن ایسے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ 

وہ احتساب جو گزشتہ بیس بائیس سال سے نیب کے ذریعے کروایا جا رہا ہے اُس نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ اگر وزیر اعظم اور حکومت اپنا رویہ نہیں بدلتے تو پھر آئندہ دو سال میں کیا ہو گا؟ یہ سوچ کر پریشانی ہوتی ہے۔ وجہ صرف ایک ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہو رہے، معیشت بگڑتی جا رہی۔ 

ایسے میں اگر کوئی غریب کو یہ کہے کہ چینی کے نو دانے کم کردو، دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھا لو تو یہ غریب کے ساتھ مذاق والی بات ہے۔ وعدے کیا کیے اور اب ہو کیا رہا ہے؟ دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین