اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم طلباء و طالبات ،انکے اساتذہ کرام اور عملہ کے افراد کی شہادتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سے سکیورٹی کی ناکامی کے حوالے سے جواب طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو آئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے جبکہ امائیکس کیورائے امان اللہ کنرانی کو بھی آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو وقوعہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے عدالت سے سکول کی سیکورٹی میں ناکامی کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی استدعا کی اور موقف اپنایا کہ جن لوگوں کی غفلت کے نتیجے میں ان کے بچے بیدردی سے قتل ہوئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ملوث دہشتگردوں کے خلاف کارروائی ہو گئی ہے لیکن جن اعلی حکام کی ذمہ داری سیکورٹی فراہم کرنا تھی ،انکی غفلت کے باعث ہمارے بچے اس دنیا سے چلے گئے ہیں،ان بڑی کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کو اگر پکڑا جائے تو آئندہ کوئی اپنی ذمہ داری سے غفلت نہیں کریگا۔انھوں نے اس وقت کے سیکور ٹی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی تو عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ سیکور ٹی میں ناکامی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی استدعا کے حوالے سے عدالت کو حکومت کے موقف سے آگاہ کیا جائے ۔ بعد ازاں آرمی پبلک سکول پشاور کے شہدا کے والدین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج چیف جسٹس پاکستان کو ان بڑوں کے نام دیدیے ہیں جو اے پی ایس سانحہ پشاور میں سیکورٹی میں ناکامی کے اصل ذمہ دار ہیں،ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے لوگوں کو سزا ملتی ہے لیکن بڑی کرسیوں والے بچ جاتے ہیں۔سانحہ پشاور پبلک سکول کیس میں جن افسران کو سزائیں ملی ہیں وہ کسی قاتل کی سزائیں نہیں ہیں،ہمارے بچے لاوارث نہیں ہیں ہمیں کہیں اور سے انصاف نہیں ملا تو سپریم کورٹ کے دروازے پر آئے ہیں۔