• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، معاشی حب ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانے میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر اپنے ترقیاتی کام کے ڈی اے سے مشورہ کر کے کیا کرتے تھے،مگر افسوس اب ہمارے میونسپل ادارے مثلاً،کے ڈی اے اورکے ایم سی وغیرہ ایک طویل عرصے سے بحران اور تنزّلی کا شکار ہیں،جس کی بنیادی وجہ فنڈز میں کمی اور میرٹ پر تقرریاں نہ ہونا ہے۔ ماضی میں کے ایم سی اورکے ڈی اے کے تحت کیے گئے ترقّیاتی کام دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی زندہ مثال شہر کی پرانی، مضبوط سڑکیں ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل جس طرح کراچی کی سڑکوں کی تعمیرات یا مرمّت کی جاتی ہے، وہ انتہائی ناپختہ اورغیر معیاری کام ہوتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی تعمیر شُدہ سڑکیں بارش کی چند بوندیں، سیوریج کا پانی تک برداشت نہیں کر پاتیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ غیر معیاری مٹیریل کا استعمال ہے۔

ماضی میں پتھر اور روڑی پر رولر کے بعد کارپیٹنگ کی جاتی تھی، جب کہ آج کرش میں بجری کے بجائے ایک خاض قسم کی مٹّی ملا کر سڑک پر بچھا دی جاتی ہے۔ نتیجتاً، سڑک کی بنیاد کم زور رہ جاتی ہے اور پانی پڑتے ہی مٹی پھول کر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں، ایسی ہی سڑکوں پرگڑھے اورمٹی کے ٹیلے بن جاتے ہیں، جو ٹریفک کی روانی متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں عام طور پر سڑکوں کی مرمّت کا بھی رواج نہیں ، تو عوام انہی ٹوٹی پھوٹی،خستہ حال سڑکوں پراذیّت میں سفر کرنے پر مجبور دکھائی دیتےہیں ۔

نارتھ ناظم آباد کی شاہ راہِ نور جہاں ہی کو دیکھ لیجیے کہ جس کی برسوں بعد کہیں جا کرمرمّت ہوئی تو غیر معیاری مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے محض ایک سال کے اندر اندرہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ۔ نارتھ کراچی جانے والی سرجانی کی سڑک تو ابھی حال ہی میں بنی تھی، مگر پہلی ہی بارش میں بیٹھ گئی۔ اس کے علاوہ فیڈرل بی ایریا کی سڑکیں ،کیفے پیالہ سے واٹر پمپ، گلبرگ ، انچولی، لنڈی کوتل ، عائشہ منزل، کریم آباد ، جہانگیر روڈ جانے والا رستہ ہو یا غریب آباد ، گلشن ِاقبال،یونی وَرسٹی روڈجانے والا فلائی اووَر، سب بار بار مرمّت کے بعد بھی تکلیف ہی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ، ذمّے دار اداروں سے درخواست ہے کہ خدارا! نئی سڑک بناتے یا مرمّت کرتے وقت، غیر معیاری مٹیریل کا استعمال نہ کریں ۔ ماضی کی طرح پتّھر کی روڑی کُوٹ کر اس پر کارپیٹنگ کی جائے، جو سالوں مضبوط رہتی ہے، کیوں کہ ڈامر کے نیچے پانی جانے سے پتھر کی روڑی نہیں پھولتی ،جب کہ مٹی پھول کر فوراً ہی سڑک کو تباہ و بربادکر دیتی ہے۔

یوں بھی مُلک، سندھ حکومت کے ماتحت ادارے، کےایم سی اور کے ڈی اے سخت مالی بحران کا شکار ہیں۔ معیاری کام ہی سے نہ صرف بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکے گا بلکہ عوام بھی آئے دن کی مصیبتوں اور عذاب سے نجات پالیں گے۔

تازہ ترین