بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال خان عالیانی جنہیں بحیثیت وزیر اعلیٰ تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا اتوار کی شب منصب سے مستعفی ہوکر بلوچستان کے تقریباً اُن ڈیڑھ درجن وزرائے اعلیٰ کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کرسکے ۔ بلوچستان کو نصف صدی پہلے صوبائی حیثیت حاصل ہوئی تھی اور اس مدت میں صرف جام محمد یوسف کو بحیثیت وزیر اعلیٰ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ اس منصب پر فائز ہونے والی باقی تمام حکومتیں یا تو فوجی انقلابات یا وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر راج کے نفاذ یا ارکان اسمبلی کی اکثریت کے کھودینے کے سبب قبل از وقت ختم ہوئیں ۔ جام کمال 2018ء کے انتخابات کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے تھے تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق یہ معاملہ شروع ہی سے ’’ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ کے مصداق تھا۔ بلوچستان عوامی پارٹی جسے مختصراً باپ کہا جاتا ہے کسی فطری سیاسی عمل کا حاصل ہونے کے بجائے بعض حلقوں کے مطلوبہ نقشے میں رنگ بھرنے کی خاطر جوڑ توڑکے ذریعے سے وجود میں لائی گئی تھی۔ تاہم صوبے میں حالیہ سیاسی بحران کا آغاز رواں سال جون میں اُس وقت ہوا جب اپوزیشن اراکین نے بجٹ میں اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص نہ کیے جانے پر احتجاج کیا جبکہ ماہ رواں کے آغاز میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے مشاورت کے بغیر فیصلے کیے جانے کی شکایت رکھنے والے خود حکمراں جماعت کے ناراض اراکین حرکت میں آئے اور گزشتہ بدھ کو 65 کے ایوان میں33 ارکان کی حمایت سے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی اور جام کمال تحریک پر ووٹنگ سے پہلے ہی مستعفی ہوگئے۔بلوچستان کی سیاست اس حقیقت کی مظہر ہے کہ مستحکم جمہوریت حقیقی سیاسی عمل ہی سے وجود میں آتی ہے اورسیاسی جوڑ توڑ کے حربے کسی مستحکم سیاسی نظام کے قیام کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔