اسلام آباد (حنیف خالد) سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں افراط زر بلندیوں سے ہمکنار ہونے کی وجوہات پاکستانی عوام کو بتائی ہیں جن کے مطابق روز مرہ استعمال کی ضروری اشیاء کی قیمتیں جو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور پورے ملک کے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں‘ اسکی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت پر ڈالی ہے۔ مالی سال 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ مہنگائی کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی عاقبت نااندیش عوام دشمن پالیسیاں ہیں۔ آٹے کی قیمت جو اُنکے دور میں 35روپے کلو ہوا کرتی تھی‘ اُس میں 114فیصد اضافہ ہو گیا ہے اور پاکستانی عوام 75روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ (ن) لیگی دور میں چینی 55روپے کلو تھی جو 100فیصد اضافے کے بعد ایک سو دس روپے کلو سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح بناسپتی گھی کی قیمت 142فیصد اضافے کے ساتھ140سے بڑھ کر 340روپے کلو ہو گئی ہے۔ چاول کی قیمت 80روپے سے 100فیصد اضافے کے ساتھ 160روپے کلو ہو گئی ہے۔ دال مسور کی قیمت 62فیصد اضافے کے ساتھ 113روپے سے بڑھ کر 183روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ دال ماش 72فیصد اضافے کے ساتھ 145سے بڑھ کر آج 250روپے کلو بک رہی ہے۔ دال مونگ 56فیصد اضافے کے ساتھ113سے بڑھ کر 176روپے کلو ہو گئی ہے۔ سبزیاں 144فیصد اضافے کے ساتھ 45سے 110روپے کلو ہو گئی ہیں۔ دودھ 90سے بڑھ کر44فیصد اضافے کے ساتھ 130 روپے کلو ہو گیا ہے۔ انکے دور میں دہی 100روپے کلو تھی جس کی قیمت میں اب ایک سو بیس فیصد اضافہ ہو کر قیمت 220روپے کلو ہو گئی ہے۔ انڈوں کی قیمت پچاس فیصد اضافے کے ساتھ 120سے بڑھ کر 180 روپے درجن تک چلی گئی ہے۔ موٹا گوشت 129فیصد اضافے کے ساتھ 800روپے کلو ہو گیا ہے۔ چھوٹا گوشت (ن) لیگی دور میں 740روپے کلو تھا‘ آج اسکی قیمت میں103پرسنٹ اضافہ ہو گیا ہے اور 1500 روپے تک قیمت چلی گئی ہے۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت لائف لائن کنزیومر کیلئے 200فیصد اضافے کے ساتھ کم از کم 2سے بڑھا کر 6روپے یونٹ کر دی گئی ہے جبکہ دیگر صارفین کیلئے 200پرسنٹ اضافے کے ساتھ 8 سے بڑھا کر 24روپے یونٹ کر دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی دور میں ادویات کی قیمتوں میں اڑھائی سو فیصد سے چار سو فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے جس سے عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس کر چیخ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت جب سے (اگست 2018ء) اقتدار میں آئی ہے فرنس آئل کی قیمتیں افراط زر میں ریکارڈ اضافے کا موجب بن رہی ہیں۔ ایک ہفتے قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سرکاری طور پر اضافہ کیا گیا‘ پکانے کے تیل کی قیمتوں میں ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی‘ کسٹم ڈیوٹی میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ افراط زر کا انڈیکس تیزی سے بلند ہو رہا ہے۔ 2018ء سے 2021ء کے تین سالوں میں قیمتوں کا اعشاریہ بدنما تصویر پینٹ کر رہا ہے جبکہ پی ایم ایل این حکومت کے آخری تین سال 2015ء سے 2018ء کے درمیان افراط زر کی شرح بیحد کم تھی۔ 2018ء سے 2021ء تک پی ٹی آئی دور میں افراط زر میں پہلے سال 7.34فیصد‘ دوسرے سال 11.12‘تیسرے سات8.90فیصد اضافہ ہوا۔ حساس اشیاء کا انڈیکس (SPI) (ن) لیگی دور میں 3.73فیصد بڑھا‘ پہلے سال 1.31فیصد‘ دوسرے سال 1.57اور تیسرے سال 0.85فیصد بڑھا جبکہ اسکے برعکس پی ٹی آئی حکومت کے دور میں 35.82فیصد بڑھا۔ پی ٹی آئی کے پہلے سال ایس پی آئی میں 5.15فیصد‘ دوسرے سال 16.34اور تیسرے سال 13.83فیصد اضافہ ہوا۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق (ن) لیگی آخری تین سالوں میں ہول سیل پرائس انڈیکس (WPI) میں 6.46فیصد اضافہ ہوا تھا‘ (ن) لیگ کے آخری تین سالوں میں پہلے سال ڈبلیو پی آئی 1.05‘ دوسرے سال 4.04اور آخری سال 3.47فیصد بڑھا جبکہ پی ٹی آئی کے 2018ء سے 2021ء کے تین سالوں میں ہول سیل پرائس انڈیکس 32.44فیصد بڑھا۔ پی ٹی آئی کے پہلے سال ڈبلیو پی آئی11.97فیصد‘ دوسرے سال11.6اور تیسرے سال 9.41فیصد اضافہ ہوا۔ یہ مذکورہ اعدادو شمار اس بات کے عیاں ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کس قدر برے انداز میں معیشت کو چلا رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اگست 2018ء میں پی ایم ایل این کے بعد جب اقتدار سنبھالا تو وہ ملک میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں بری طرح ناکام ہے۔ عوام اس سے بیحد تنگ ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے انکی چیخیں نکل گئی ہیں۔ گزشتہ تین سال میں پاکستانی معیشت کے ہر طرح کے انڈیکس 10فیصد سے زیادہ افراط زر دکھا رہے ہیں جبکہ پی ایم ایل این اقتدار کے آخری تین سالوں میں افراط زر سنگل ڈیجٹ میں تھا۔ پی ٹی آئی دور میں سارے انڈیکس 10فیصد سالانہ سے بھی زیادہ بڑھ رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ان تمام پرائس انڈیکس میں اضافہ 3فیصد سے بھی کم ہوتاتھا۔ فوڈ انفلیشن انتہائی پریشان کن ہے جو پی ایم ایل این کے زمانے میں 2فیصد سے کم ہوا کرتا تھا‘ 2013-18ء تک (ن) لیگی حکومت کے پانچ سال میں بھی فوڈ انفلیشن 2فیصد سے ہمیشہ کم رہا لیکن پی ٹی آئی دور میں نومبر دسمبر 2020ء میں افراط زر شہری علاقوں میں 19فیصد اور دیہی علاقوں میں 24فیصد تک جا پہنچاہے۔ آج بھی افراط زر کی شرح دو ہندسوں (ڈبل ڈیجٹ) میں ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS)نے گزشتہ ہفتے افراط زر کی شرح 14اعشاریہ 48فیصد بتائی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔