آلو دنیا میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی ہے جو بچوں بڑوں سب کی مرغوب غذا ہے اور اسے دنیا بھر میں مختلف انداز میں پکا کر کھایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی اسے مختلف صحت کے مسائل ذیابیطس اور موٹاپے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے آلو کھانا چھوڑنا ممکن نہیں، ان لوگوں کےلیے ماہرینِ صحت نے تحقیق سے پتہ چلایا ہے کہ کس شکل میں آلو کھانا صحت کے لیے محفوظ ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک مطالعے میں گزشتہ روز فرنچ فرائز کا تعلق ٹائپ 2 ذیابیطس سے جوڑا گیا، لیکن کچلے یا ابلے ہوئے یعنی میشڈ اور تندور میں پکے یعنی بیک کیے ہوئے آلو کا اس بیماری سے کوئی تعلق نہیں۔
اس مطالعے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ صحت کے خطرات کو کم کرنے میں کھانے کی تیاری کا طریقہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کھائی جانے والی غذا کی قسم۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی ایچ چین اسکول آف پبلک ہیلتھ کے محققین نے یہ بھی پایا کہ فرنچ فرائز کو ثابت اناج سے تبدیل کرکے کوئی بھی شخص ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 19 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔
یہ نیا تحقیقی مقالہ جس کی قیادت پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق سید محمد موسوی نے کی اور جس کے شریک مصنف ہارورڈ کے معروف ماہرِ غذائیت اور وبائی امراض والٹر وِلٹ ہیں برطانوی طبی جریدے میں شائع ہوا ہے۔
3 دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط 3 بڑے طویل مدتی امریکی مطالعات میں شامل 2 لاکھ 5 ہزار سے زیادہ بالغ افراد کی خوراک اور ذیابیطس کے نتائج کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہفتے میں 3 بار فرنچ فرائز کھانے کا تعلق ٹائپ 2 ذیابیطس کے پیدا ہونے کے 20 فیصد اضافی خطرے سے ہے۔
اس کے برعکس ان ماہرین نے بیک کیے ہوئے، ابلے ہوئے یا کچلے ہوئے آلو کے استعمال اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کے درمیان کوئی اہم تعلق نہیں پایا، باوجود اس کے کہ آلوؤں کو بہت زیادہ بدنام کیا جاتا ہے اور غذائیت کی دنیا میں کچھ لوگ انہیں عام طور پر غیر صحت بخش قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔
ان نتائج کی بنیاد پر مصنفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غذاؤں کو تیار کرنے کا طریقہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کھائی جانے والی غذا کی اقسام۔
جب بات ذیابیطس کے خطرے کی ہو جس نے گزشتہ سال 38.4 ملین امریکیوں کو ہر عمر میں متاثر کیا، جو کہ آبادی کا تقریباً 11.6 فیصد ہے، ان میں زیادہ تر کیسز ٹائپ 2 ذیابیطس کے ہیں، جس کا گہرا تعلق موٹاپے اور ناقص خوراک سے ہے۔