بلوچستان میں سوا ماہ سے جاری سیاسی بحران کا ڈراپ سین ہوگیا جام کمال خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل اپنے عہدئے سے استعفیٰ دیدیا ، ایسا بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں تیسری بار ہوا جب کسی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور تحریک پر ووٹنگ سے قبل ہی وزیراعلیٰ اپنے عہدئے سے مستعفیٰ ہوگئے ، جام کمال خان سے قبل ماضی میں سردار اختر مینگل اور نواب ثنا اللہ خان زہری کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی لیکن وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے قبل ہی مستعفٰی ہوگئے۔
جام کمال خان کے خلاف پہلی بار 14 ستمبر کو اپوزیشن ارکان کی جانب سے تحریک التوا پیش کی گئی جو گورنر بلوچستان نے تکنیکی غلطی کی بنیاد پر اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپأس بھجوادی تھی جس کے بعد جام کمال خان کے خلاف ان کی اپنی ہی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے 14 ناراض و اتحادی ارکان ظہور بلیدی ، میر اسد اللہ بلوچ ، حاجی اکبر آسکانی ، سردار عبدالرحمٰن کھیتران ، میر سکندر عمرانی ، میر نصیب اللہ مری ، میر محمد خان لہڑی ، ماجبین شیران ، بشریٰ رند ، میر جان محمد جمالی ، سردار صالح بھوتانی ، لیلیٰ ترین ، مستورہ بی بی اور لالا رشید دشتی کے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی۔
تاہم بعد ازاں جام کمال خان کے مخالف ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی جانب سے ان کی مخالفت زیادہ نظر آئی جبکہ ان کی سابق مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں کی بڑی تعداد جام کمال خان کے ساتھ رہی ، اگرچہ بلوچستان میں ماضٰ میں دو وزرائے اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں آئیں اور تب بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں۔
تاہم اس مرتبہ بلوچستان میں سیاسی حوالے سے بہت سی نئی روایات قائم اور نئی چیزیں نظر آئیں جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے موقع پر 20 اکتوبر کے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے ارکان کی جانب سے اپنے حمایتی پانچ ارکان اسمبلی لالہ رشی بلوچ ، اکبرآسکانی اور تین خواتین ارکان اسمبلی ماہ جبین شیران ، بشریٰ رند اور لیلیٰ ترین کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور پھر ان لاپتہ ہونے کے حوالے سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان پر الزامات عائد کیے جانے کے ساتھ متعلقہ حکام سے ان ارکان کی بازیابی کے لئے نہ صرف رابطے کیے گئے۔
تاہم 20 اکتوبر کے اجلاس میں ہی لالہ رشید بلوچ شرکت کے لئے پہنچ گئے اور انہوں نے بھی ناراض ارکان اور جام کمال مخالف ارکان کی حمایت کا اعلان کیا ، 20 اکتوبر کے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے بعد تحریک عدم اعتماد کے حامی 34 ارکان سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ چلے گئے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میر ظہور بلیدی نے ایک ٹوئٹ کے زریعے بتایا کہ چار ارکان کے لاپتہ ہونے کے بعد مذکورہ 34 ارکان نے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پناہ لی ہے اور جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن ایک ساتھ اسمبلی جائیں گے۔
چند دن کے بعد چار لاپتہ ارکان اکبرآسکانی ماہ جبین شیران ، بشریٰ رند اور لیلیٰ ترین کا پہلے مشترکہ ویڈیو بیان سامنے آیا کے وہ لاپتہ نہیں بلکہ اسلام آباد میں اپنی مصروفیات کے حوالے سے موجود ہیں جلد کوئٹہ لوٹ آئیں گے اور اگلے روز تینوں ارکان بلوچستان حکومت کے طیارئے مین کوئٹہ پہنچ کر جام کمال خان مخالف کیمپ کا حصہ بن گئے ، بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی یہ دیکنھے کو نہیں ملا کہ یوں ارکان ایک جگہ موجود ہوں۔
20 اکتوبر سے جام کمال خان کے اپنے عہدئے سے مستعٰفی ہونے تک 24 اکتوبر کی شب تک مذکورہ ارکان میر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر رہے اور سابق اسپیکر کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنارہا ، اس دوران سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ناراض ارکان کے درمیان ٹوئٹر کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا پہلے تو روز کی بنیاد اور پھر تھوڑئے تھوڑئے سے وقفے سے ٹوئٹر پر لفاظی جنگ اور الزات کی بوچھاڑ نظر آئی ، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان جنہوں نے اس دوران پہلے ٹوئٹر پر پارٹی کی صدارت سے مستعفیٰ ہونے کا ٹوئٹ کیا۔
جس کے ہفتہ دس دن کے بعد جب پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ کی جانب سے پارٹی کے رہنما سابق وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی کو پارٹی کا قائم مقام صدر مقرر کیے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تو جام کمال خان نے اس کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے پارٹی کی صدارت سے استعفٰی نہیں دیا پہلے سینیٹر منظور کاکڑ کی جانب سے میر ظہور بلیدی کو پارٹی کا قائم مقام صدر مقرر کیے جانے کی اطلاع الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دی گئی تو اس کے فوری بعد جام کمال خان نے بھی الیکشن کمیشن میں جاکر اس کی تردید کی۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میر ظہور بلیدی کی جانب سے جام کمال خان کے حامی پارٹی ارکان اسمبلی کو خطوط کے زریعے آگاہ کیا گیا کہ مذکورہ ارکان تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ استعمال کریں بصورت دیگر ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی جس میں اسمبلی کی رکنیت کا خاتمہ شامل ہے ، تاہم جام کمال خان کے حامی آخر تک ان کے ساتھ کھڑئے رہے اب دیکھنا ہے کہ ان ارکان کے خلاف ان کی جماعت کی جانب سے کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
بلوچستان میں سوا ماہ تک جاری رہنے والے سیاسی بحران کے دوران معاملے کو حل کرنے کے حوالے سے مختلف سیاسی رہنما سرگرم رہے بحران کے آخری دو دن چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک بھی کوئٹہ میں مصروف رہے ، وزیراعلیٰ جام کمال خان کےمستعٰفی ہونے کے اگلے روز اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو بھی اپنے عہدئے سے مستعفٰی ہوگئے وہ بلوچستان کے اگلے وزیراعلیٰ کے لئے مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں ، بلوچستان عوامی پارٹی کے لئے نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ پارٹی کے نئے مستقل سربراہ اور پارٹی کے انتخابات کے اہم مراحل بھی ابھی باقی ہیں ۔