پنجاب میں حکمران جماعت تین سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک نئے بلدیاتی انتخابات کرانے میں تذبب کا شکار ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو بحال تو کردیا ہے لیکن ان بلدیاتی اداروں میں بھاری اکثریت اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کی ہے، جس کے باعث بلدیاتی اداروں کی بحالی حکومت کے لئے دردِ سر بن گئی ہے۔
بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے اپنے متعلقہ دفاتر سنبھالنے کے بعد بلدیاتی اداروں کے افسران و ملازمین بالخصوص سرکاری افسران حکومت اور بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے درمیان رسہ کشی سے سینڈوچ بن گئے ہیں جس سے بلدیاتی اداروں کا نظام بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس سے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں اداروں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے دورہ لاہور کے موقعہ پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرواکے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کی ہدایت کی جس پر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ بلدیاتی اداروں کا معاملہ ایک طرف سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو دوسری جانب نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ تیارکیا جارہا ہے جو پنجاب اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور اس صورت حال میں حکومت کے لئے سال 2021ءکے آخر تک صوبے میں نئے بلدیاتی انتخابات کرانے میں قانونی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
وزیراعظم نے اعلیٰ صوبائی حکام کو ہدایت کی کہ اگر فوری انتخابات نہیں ہوسکتے تو بلدیاتی اداروں کو بحال کردیاجائے اسی دوران سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کو بحال کرنے کا فیصلہ صادر کردیا جس پر صوبائی حکومت نے بلدیاتی ادارے تو بحال کردئیے ہیں لیکن انہیں مالی و انتظامی اور سیاسی اختیارات منتقل کرنے میں کئی قانونی پیچیدگیاں حائل ہیں، لگتا ایسا ہے کہ بلدیاتی ادارے جن کی آئینی مدت دو ماہ باقی رہ گئی ہے۔
حکومت انہیں مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دیکر اپنی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر مضبوط کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا نہیں چاہتی اور یوں موجودہ بلدیاتی اداروں کا اگلے دو ماہ تک غیر فعال رہنے کا ہی امکان ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں سنیئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور مجھ جیسے ان کے چند رفقاءچاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات بلدیاتی اداروں کے سپرد کرکے انہیں مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتے ہیں اس سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہونے سے جمہوریت آئے گی اور عوام کے شہری مسائل حل ہوں گے لیکن بدقسمتی سے چاروں صوبوں میں کوئی بھی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے حق میں نہیں۔
ان کاکہنا تھا اٹھارویں ترمیم کے تحت سالانہ کھربوں روپے کے فنڈز وفاق صوبوں کو منتقل کرتا ہے لیکن صوبے ان فنڈز کو نچلی سطح پر بلدیاتی اداروں کو تقسیم نہیں کرتے جس سے لوگوں کے بنیادی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ فواد چودھری نے اس حوالے سے کراچی اور لاہور دو بڑے شہروں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وفاق سے ملنے والا سارا پیسہ صوبائی حکومت خرچ کررہی ہے اور کراچی کے بلدیاتی ادارے غیر فعال ہونے سے شہر کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اسی طرح پنجاب کے سارے فنڈز لاہور میں اورنج لائن ٹرین چلانے پر لگادئیے گئے جس سے دوسرے شہروں کی ترقی رکنے سے کئی مزید مسائل پیدا ہوئے۔
انکا کہنا تھا کہ شہریوں کے بنیادی مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر بااختیار بنایاجائے لیکن ماضی کی طرح چاروں صوبوں میں کئی حکومتی وزراءاور پارلیمانی ارکان اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں تاہم وزیراعظم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اگلے سال 2022ءکے اوائل میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کا تہیہ کیا ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ صوبائی حکومتیں وزیراعظم کے احکامات پر کس حد تک عمل پیرا ہوتی ہیں۔
صوبائی دارالحکومت لاہور اور جنوبی پنجاب کے شہر خانیوال میں دسمبر کے اوائل میں ہونے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک بار پھر زبردست انتخابی معرکہ ہوگا دونوں متحارب سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے حکمت عملی تیارکرلی ہے، لاہور کے حلقہ این اے 133 سے قومی اسمبلی کے رکن پرویز ملک کے انتقال سے خالی ہونیوالی نشست پر پرویز ملک مرحوم کی اہلیہ بیگم شائستہ پرویز ملک اور پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہوگا۔
تاہم پیپلز پارٹی کے اسلم گل سمیت ایک درجن سے زائد امیدوار بھی میدان میں موجود ہیں۔ پی پی 206خانیوال کی نشست مسلم لیگ (ن) کے منخرف رکن پنجاب اسمبلی نشاط احمد ڈاھا کے انتقال سے خالی ہوئی ہے۔ دونوں حلقوں میں انتخابی جوڑ توڑ اور سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ان ضمنی انتخاب کے نتائج کا آئندہ حلقوں کی انتخابی سیاست پر گہرا اثر ہوگا ۔اپوزیشن جماعتیں ان ایشوز پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموارکرنے کے لئے میدان میں نکل آئی ہیں جبکہ حکومت نے بھی اپوزیشن کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لئے غریب عوام کو کھانے پینے کی چند ضروری اشیاء پر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے، احساس پروگرام اور صحت کارڈ کے ذریعے عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں تاکہ عوام کو ریلیف دیکر اپنی ساکھ بحال کی جاسکے، اس حوالے سے اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں جن میں ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی اس کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔