• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ بدقسمت صوبہ ہے، ثقافتی ورثے کا تحفظ نہیں کرسکا، چیف جسٹس گلزار احمد

کراچی(اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ہندو جیم خانہ بحالی کیس میں حکومت سندھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بدقسمت صوبہ ہے، ثقافتی ورثے کا تحفظ نہیں کرسکا، کراچی میں اتنی تاریخی عمارتیں ہیں کسی اور ملک میں ہوتی تو سیاحت کا ذریعہ اور سیاحوں کی مرکز نگاہ ہوتیں، بے رحم لوگوں کی وجہ سے کراچی میں دھول مٹی اور چاروں اطراف کچرے کا بدبو دار ماحول ہے اور یہاں آرٹس کونسل آرٹ کے نام پر دھبہ ہے فقط کنکریٹ کا ڈبہ بنا رکھا ہے۔ 

چیف جسٹس نے ہندو جیم خانہ میں مارکی اور عارضی دفتر فی الفور ختم اور اسے اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومت کو ناپا کیلئے پرائم لوکیشن پر متبادل جگہ دینے اور اکیڈمی کے لیے آڈیٹوریم سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کے بھی احکامات دئیے۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ قومی ورثہ قرار دی جانے والی عمارت میں کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔ 

جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل لارجر بینچ نے ہندو جیم خانہ کی بحالی سے متعلق شری رتنی شور مہادیو ویلفیئر شیوا منڈلی و دیگر کی درخواستوں کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جیم خانہ کی اصلی عمارت کو نہیں چھیڑا گیا ہے اور خالی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ موہٹہ پیلس میں کوئی خالی جگہ ہے تو وہاں کچھ تعمیر کردیں ،ہم مذہب کی عبادت گاہوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ یہ پراپرٹی تو ریاست کی ملکیت ہے، آپ ہمیں آڈیٹوریم کی تعمیر پر کیسے مطمئن کرینگے مارکی اور دفاتر کی ہندو جیم خانہ میں کوئی گنجائس نہیں ہے۔سماعت کے دوران سیکرٹری ثقافت نے عدالت کو بتایا کہ ہم ناپا کو متبادل جگہ دے رہے ہیں ،وہاں اکیڈمی منتقل ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کا کہنا تھا کہ آپ نارتھ کراچی میں جگہ دینگے تو کون جائیگا وہاں۔ 

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شہر میں ثقافتی عمارتوں کی دیکھ بھال نہ ہونے پر سیکرٹری ثقافت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہر طرف دھول مٹی، گندگی اور بدبو ہے،چاروں اطراف کچر اہوتا ہے اور یہاں آرٹس کونسل جو کہ آرٹ کے نام پر دھبہ ہے کنکریٹ کا ڈبہ بنا ہوا ہے، کراچی میں تو کئی ہیرٹیج سائٹس کسی اور ملک میں ہوتیں تو سیاحت کا ذریعہ بن جاتا بلکہ سیاحوں کی مرکز نگاہ ہوتیں۔ 

سماعت کے دوران عدالت کے استفسار پر سیکریٹری ثقافت نے بتایا ایک سو سے زائد ہیرٹیج سائٹس ہیں۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ جا کر دیکھیں برنس روڈ پر لوگوں نے اوپر اسٹرکچر بنالیا ہے تباہ کردیا ہے، سیکرٹریٹ کے پیچھے چلے جائیں ہزاروں خوبصورت عمارتیں ہیں، زیب النِساءاسٹریٹ سے پرانی عمارتیں باری باری گرا رہے ہیں۔ 

دوران سماعت وکیل نے عدالت سے مکا لمہ کیا کہ لکشمی بلڈنگ دیکھیں، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا لکشمی بلڈنگ گرادی؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں اس کی حالت دیکھیں کیا ہوگئی ہے۔

اس پرچیف جسٹس نے کہا آپ نے تو میرا ہارٹ اٹیک کرادیا تھا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ مزار قائد کے گرد ساری پرانی عمارتیں ختم کردی گئی ہیں، رنگون والا بلڈنگ گرادی سب ختم کر رہے ہیں۔ 

دوران سماعت عدالت نے کمشنر کراچی کے تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ صبح کہاں تھے آپ کو یہاں موجود ہونا چاہیے تھا، آپ نئے نئے آئے ہیں اسلئے رعایت دے رہے ہیں۔ 

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے مکالمہ کیا کہ کمشنر صاحب آپ نے پورا کراچی دیکھا ہے؟ یہ آپ کا شہر ہے، جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ 20یوم میں آدھا شہر دیکھ لیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصل شہر آپ نے دیکھا ہی نہیں، گولیمار گئے ہیں؟ کورنگی بھی آپ نہیں گئے ہونگے، فردوس کالونی، ناظم آباد گئے ہیں؟ 

آپ نے دیکھا ہی کیا ہے کراچی میں، کمشنر صاحب 20یوم میں تو اس شہر کا فضائی دورہ ہی ہوسکتا ہے آپ نے آدھا شہر کیسے دیکھ لیا؟ بعد ازاں عدالت نے ہندو جیم خانہ میں قائم مارکی اور عارضی دفاتر کو فی الفور ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

تازہ ترین