• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید رضوان الحق، ٹورنٹو، کینیڈا

افغانستان میں طالبان کا اونٹ اب ایک کروٹ بیٹھ چُکا ہے اور باقی ساری دنیا پہلے سکتے ،پھر حیرت اور اب صدمے سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس سکتے، حیرت اور صدمے کی ترتیب اور مقدار سب کے لیے مختلف ہے ۔ نیز،تمام دنیا بشمول امریکا اور کسی حد تک خود طالبان کے لیے بھی یہ سب کچھ کافی غیرمتوقع رہا۔ اگر افغان عوام کی بات کی جائے تو شاید ان کا حال کچھ یوں ہے کہ؎حیرتوں کے سلسلے سوزِنہاں تک آگئے …ہم نظر تک چاہتے تھے، تم تو جاں تک آ گئے ۔

اس حیرت انگیز پیش رفت پر ہزار ہا سوال اور صحافیوں کے لیے نہ ختم ہونے والا مواد ہے،مگر شاید سب سے بنیادی سوال یہ ہےکہ سُپرپاوَر کہلانے والی ریاست، امریکاکی فوج،جو جدیداسلحے سے لیس تھی، اپنے سے آدھے اور معمولی وسائل رکھنےوالے طالبان کے سامنے یک لخت کیسے ڈھیر ہوگئی۔دوسری جانب،سابق افغان صدر، اشرف غنی، جو اپنے فرار کی توجیح بھی پیش کرچُکے ہیں اور ہم بھی مان لیتے ہیں کہ اپنا سر کسی چوراہے پر استادہ کروانے سے بہتر ہے کہ ہیلی کاپٹر کی سواری کرلی جائے۔

غنی ، جوکہ مغربی تعلیم یافتہ، دانش وَر، معلّم اور مصنف ہیں، طالبان کی کابل پر یلغار کے وقت بھی مطالعے ہی میں مصروف تھے۔ انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ،جس کا عنوان’’ Fixing Failed States‘‘ ہے۔ مطالعہ کے علاوہ ان کا اور ان کے رفقا کا پسندیدہ مشغلہ پاکستان کونقصان پہنچانا تھا،جو انہوں نے آخر وقت تک اپنائے رکھا۔ بحیثیت صدر انہوں نے افغان عوام کو اپنے سات سالہ دَور میں کیا دیا، اس سوال کا جواب بھی جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اشرف غنی اور ان کے پیش رَو، حامد کرزئی امریکا کی بھرپور مالی اعانت کے ساتھ افغانستان پر کم و بیش بیس سال حکمران رہے۔ 

اس پورے عرصے میں مالی اعانت ایک طرف، ہزارہا امریکی فوجی اور سویلین تیکنیکی عملہ افغان قوم اور فوج کی ’’تعمیرِنو ‘‘کے لیے تعیّنات رہا، لیکن حقائق کسی اور طرف ہی اشارہ کر رہے ہیں۔’’تعمیرِنو‘‘ کے اس عرصے میں دو ٹریلین ڈالر کھپ گئے، ہزارہا جانیں ضایع ہوئیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، مگر ’’تعمیرِ نو‘‘ کا یہ سلسلہ نہ رُکا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دونوں ہی افغان صدور کے ادوار میں افغان انتظامیہ میں نااہلی، رشوت ستانی، بدعنوانی اور اقربا پروری عروج پر رہی۔ 

یہ معاملہ دونوں صدور کے اقربا اور عملے میں بتدریج نیچے تک رہا اور ڈالرز کی بہتی گنگا میں سبھی نے حسبِ توفیق ہاتھ دھوئے۔ بقول سینئر صحافی ،وسعت اللہ خاں ’’ افغان اشرافیہ نے جتنی سرمایہ کاری دبئی میں کی ،اس سے آدھی میں افغانستان کو دبئی بنالیتے۔‘‘لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ڈالرز کی اس گنگا کا سر چشمہ ظاہر ہے کہ امریکی حکومت تھی اور وقتاً فوقتاً فراہم کردہ یہ رقم افغان طالبان کے خاتمے کے لیے تھی، جس کی نگرانی اور معاونت خود امریکی حکومتی کارندے کر رہے تھے، تو پھر یہ سارا غبن کیسے ہوا؟

کیسے افغان طالبان کم زور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتے چلے گئے، اتنے مضبوط کہ بنا کسی مزاحمت مُلک تسخیر لیا۔ افغان انتظامیہ کی نااہلی اور رشوت ستانی افسوس ناک ضرور ہے، مگر راز نہیں کہ برسوں سے جاری اس لُوٹ کھسوٹ کا علم باخبر حلقوں کو شروع ہی سے تھا اور حلقۂ یاراں میں دعوتِ شیراز جاری تھی۔

درحقیقت افغان انتظامیہ کے پاس ایک انتہائی نادر موقع تھا کہ امریکی سرمائے اور تربیت یافتہ عملے کی موجودگی کا فائدہ اٹھاکر اپنی قوم کو غربت ،جہالت اور پستی کے اندھیروں سے نکال کر جدید دَور میں لا کھڑا کرتے، لیکن افسوس کہ انہوں نے دبئی میں جائیدادیں خریدنا زیادہ اہم سمجھا۔دوسری جانب، طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے پر امریکی صدر بائیڈن کو اپنی جان بچانے کے لیے کہنا پڑا کہ’’ جو فوج اپنے مُلک کے لیے خود نہیں لڑسکتی، ہم اس کے لیے اپنی جانیں نہیں دے سکتے،‘‘ حالاں کہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے اپنی فوج سے اس سارے عرصے میں پراکسی وار ہی کروائی۔ 

در حقیقت بات یہ ہے کہ خود امریکا بھی اپنے ہی شروع کیے گئے کھیل سے اُکتا گیا تھااورافغانستان سے باعزّت اخراج کے لیے سیف پیسیج کا متلاشی تھا۔ صدر جوبائیڈن امریکی سیاست میں نووارد نہیں، بلکہ صدر اوباما کے نائب صدر تھے اور اس سے پہلے کانگریس میں اپنی عمر گزار چُکے ہیں بہر حال، امریکی ناخدا اپنی ہی بنائی کشتی بڑے رسان سے ڈبو کر پار اتر گئے۔

امریکی انتظامیہ کا یہ موقف کہ افغانستان سے طالبان کا صفایا کرنے کے بعد ہم اس کی تعمیرِنو بھی کریں گے، خُوش نما مگر کھوکھلا تھا۔ اس دعوے میں نیک نیتی کا فقدان اور زمینی حقائق سے قطعی لاتعلقی نمایاں تھی ۔ ہاں، اگر کچھ نمایاں تھا ،تو زعم و تکبر ، جو اللہ کو قطعی پسند نہیں۔جہاں تک بات ہے افغان فوج کی ،تو یہ بے چارے کسی نظریے سے زیادہ، اپنے روزگار اور بہتر مستقبل کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ 

مگر جب مہینوں سے ان کی تن خواہیں رُکی ہوں اور راشن میں صرف آلو ملیں اور ساتھ وہ حکّامِ بالا کی عیاشیاں بھی دیکھتے رہیں، تو آخر کیوں اور کس کے لیے طالبان کے سامنے اپنی جان دائو پر لگائیں گے۔ یہ فوجی زمین پر تھے اور زمینی حقائق کو بھی یہی جھیل رہے تھے، لہٰذا انہوں نے فیصلہ بھی زمینی حقائق کے مطابق ہی کیا۔ اس طویل سعی لاحاصل میں کھویا تو بہتوں نے بہت کچھ ،مگر پایا بس امریکن کمپنیز، ٹھیکے داروں اور افغان اشرافیہ نے۔ 

افغانستان میں ایک طویل عرصے سے جاری اس امریکی ڈرامے کے اختتام پر امریکا، طالبان اور پاکستان کے لیے کچھ سوال ضرور ہیں کہ کیا امریکا محض طاقت اور پیسے کے زور پر دوسری اقوام پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی روش ترک کردے گا؟ کیا با شعور امریکی عوام اپنے منتخب نمائندوں کی ایسی مہم جوئیوں کا احتساب نہیں کریں گے؟کیا طالبان اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ اب دنیا بدل چُکی ہے ، جس میں جبر کی حکمتِ عملی کام نہیں آئے گی؟ 

آج کے دَور میں خبروں کی ترویج دو طرفہ ہے ،یعنی جہاں عوام مستند ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے با خبر رہتےہیں، وہیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی خبررسانی کا کام ہو رہا ہے۔ہماری توبس یہی دُعا ہے کہ’’ اللہ پاک افغان عوام کی آزمائش کے دن ختم کرکے انہیں ایک آزاد، باوقار قوم کی طرح جینے کے مواقع اور بہتر حکمراں عطا کرے اور امریکی عوام کو اتنا شعور دے کہ وہ اپنے نمایندوں سے ’’بس بہت ہوگیا‘‘ کہنے پرہم آواز ہو جائیں،آمین۔

تازہ ترین