وزیرِ اعظم عمران خان سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے طلب کرنے پر پیش ہوئے، عدالت کے روبرو انہوں نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سانحۂ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کی۔
سماعت سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے گفتگو کرتے رہے۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم کو روسٹرم پر بلا لیا
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب آپ روسٹرم پر آئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے والدین کو مطمئن کرنا ضروری ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کارروائی ہو۔
وزیرِ اعظم عمران خان روسٹرم پر آگئے جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جب سانحہ ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی، صوبائی حکومت جو بھی مداوا کر سکتی تھی کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شہداء کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیئے، وہ سوال کرتے ہیں کہ پورا سیکیورٹی سسٹم کہاں تھا؟ ہمارے واضح حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے جواب دیا کہ سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی، اس وقت ہر روز خود کش حملے ہو رہے تھے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمارے وزیرِ اعظم ہیں، آپ کا احترام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ وزیرِ اعظم ہیں، جواب آپ کے پاس ہونا چاہیئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ 1 منٹ جج صاحب! آپ ٹھہر جائیں، بچوں کے والدین کو اللّٰہ صبر دے گا، ہم معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے، میں پہلے بھی ان سے ملا تھا، اب بھی ان سے ملوں گا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ پتہ لگائیں کہ 80 ہزار افراد کس وجہ سے مارے گئے، یہ بھی پتہ لگائیں کہ 480 ڈرون حملوں کا ذمے دار کون ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا کہ یہ سب پتہ لگانا آپ کا کام ہے، آپ وزیرِ اعظم ہیں، بطور وزیرِ اعظم ان سارے سوالوں کا جواب آپ کے پاس ہونا چاہیئے۔
شہدائے APS کیساتھ 80 ہزار لوگوں کا بھی دکھ ہے: وزیرِ اعظم
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے لواحقین کا دکھ ہے تو 80 ہزار لوگوں کا بھی ہمیں دکھ ہے، آپ اے پی ایس کے معاملے پر اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیشن بنا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمیشن بنا چکے ہیں، رپورٹ آ چکی ہے، 20 اکتوبر کا ہمارا حکم ہے کہ ذمے داروں کا تعین کر کے کارروائی کریں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کے لیے لے آئے ہیں، کیا ہم ایک بار پھر سرینڈر ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم صاحب! آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھ لیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2014ء میں سانحہ پیش آیا، جسے 7 سال گزر چکے ہیں، اس کی رپورٹ 2019ء میں سامنے آئی، جن کی ذمے داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا، ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کا حکم دیا تھا، والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ جس دن سانحۂ اے پی ایس رونما ہوا کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، واقعے کے دن ہی میں پشاور پہنچا اور بچوں اور ان کے والدین سے ملا، اسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا، اس وقت ماں باپ سمیت پوری قوم صدمے میں تھی، واضح کر دوں کہ جو ازالہ کر سکتے تھے کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ والدین کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیئے تھے، آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ آپ پاور میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے، ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں، دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہماری ہے، آپ نے کیا کیا؟ انہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے۔
ایجنسی، فوج کے کرتا دھرتا مراعات انجوائے کر رہے ہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو ذبح کیا، ان کا جو دل کیا وہ بچوں کے ساتھ کرتے رہے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا، اس وقت کی حکومت، انٹیلیجنس اور آرمی کے کرتا دھرتا مراعات لے کر چلے گئے، ہماری دینا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، سانحۂ اے پی ایس کے وقت ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کہاں تھیں؟ ایجنسی اور فوج کے کرتا دھرتا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، یہ تمام مراعات گارڈر آف آنر کے ساتھ انجوائے کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اے پی ایس کے سانحے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ بچے ہونا آسان ہدف تھا، رپورٹ کے مطابق آسان اہداف کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیئے گئے تھے، آسان ہدف کو تحفظ نہ دینا حکومت کی بڑی ناکامی تھی، بتائیں یہ سانحہ اے پی ایس کس نے ہونے دیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ آئین ریاست پر ذمے داری عائد کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، ریاست نے شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیئے ہیں؟
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب! اگر آپ نے مجھے بلایا ہے تو مجھے بولنے کا موقع بھی دیں، میں اس وقت حکومت میں نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدے داران پر کرمنل نہیں اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ جنرل مشرف نے طالبان کے ساتھ پریشر میں آ کر جنگ شروع کر دی، ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی بھی ملوث نہیں تھا، ہم نے واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔
وزیرِ اعظم صاحب! اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب! اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کریں، مدعے پر رہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو بہتر کر کے نیشنل کوآرڈینیشن پلان بنایا، افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد داعش، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آ گئے، طالبان حکومت کے بعد ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے، دہشت گرد ان ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں روپوش ہو گئے، ہماری ساری سیکیورٹی ایجنسیز ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک یہ سمجھ آیا ہے کہ جو ہونے والا ہے اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جو ہو رہا ہے اس کے لیئے اقدامات نہیں کیئے گئے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ افغان صورتِ حال کی وجہ سے خطرات ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل موجود ہیں، ہم نے آپ کو لوگوں کے نام دیئے، اٹارنی جنرل سے کہا کہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی سے پوچھیں کہ ان ناموں کا کیا ہونا ہے، ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے، چاہتے ہیں کہ شہداء کے والدین کو تسلی ہو کہ عدالتیں اور حکومت سانحۂ اے پی ایس کو نہیں بھولے۔
سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم کی تجویز مسترد کر دی
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ تمام جماعتوں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا اور دہشت گردی کو شکست دی۔
وزیر ِاعظم عمران خان اور اٹارنی جنرل نے سانحۂ اے پی ایس پر اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کی تجویز دی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کی وزیرِ اعظم عمران خان اور اٹارنی جنرل کی تجویز مسترد کر دی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ انصاف کی جو تحریک 25 سال چلائی ہے، اسی پر قائم ہوں، کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے، آپ حکم کریں ایکشن لیں گے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ حکومت شہدائے سانحۂ اے پی ایس کے والدین کا مؤقف لے کر کارروائی کرے، سانحے میں ملوث افراد کے خلاف اقدامات کرے۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 20 اکتوبر کے حکم نامے پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے سانحۂ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس کی سماعت 4 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر عدالتِ عظمیٰ کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی۔
کا سیکیورٹی اسٹاف پہلے ہی سپریم کورٹ پہنچا تھا، جس نے عدالت کے داخلی دروازوں پر سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔
عدالتِ عظمیٰ کا وزیرِ اعظم کی طلبی کا حکم
اس سے پہلے آج صبح سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحۂ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کو آج ہی طلب کیا تھا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا ہے کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس میں رہ جانے والے خلاء سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا، اے پی ایس کا واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھا۔
تمام غلطیاں قبول ہیں: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ہم تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، دفتر چھوڑ دوں گا لیکن کسی کا دفاع نہیں کروں گا، اگر عدالت تھوڑا وقت دے تو وزیرِ اعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لے کر عدالت کو معاملے سے آگاہ کر دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیرِ اعظم سے ہی جواب طلب کریں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمے داران کےخلاف مقدمہ درج ہوا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ سیکیورٹی لیپس تھا، حکومت کو اس کی ذمے داری قبول کرنی چاہیئے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاعات ہونی چاہیئے تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے ہیں، دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟
کالعدم TTP سے مذاکرات کا ذکر
دورانِ سماعت عدالت میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی ہے، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیئے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔
سیاسی باتیں یہاں نہ کریں، یہ عدالت ہے: جسٹس اعجاز
شہدائے اے پی ایس کے والدین کے وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں، یہ عدالت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمدنے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ عدالت نے کلیئر آرڈر کیا تھا، اب تک ہدایات لے کر کیوں نہیں بتایا؟ اٹارنی جنرل آپ اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو حکم کرے گی قبول ہے، کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اے پی ایس کے واقعے سے پوری قوم کو شدید دھچکا لگا، ہمارے بچوں کو بے دردی سے ذبح کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد نے حکم دیا کہ وزیرِ اعظم عمران خان خود عدالت میں پیش ہو کر جواب دیں۔