لاہور (رپورٹ: آصف محمود)گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ اگلے دو ماہ کے دوران پنجاب کے 76لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی بہت کمی ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وسائل کا ضیاع بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سوچ ہے کہ ہر چیز مفت ہونی چاہیے۔ ایسا کب تک چلے گا۔ ہم نے آج تک پانی کے میٹر نہیں لگائے۔ جب میٹر لگائیں گے تو لوگ پانی احتیاط سے استعمال کریں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز گورنر ہائوس میں ’’بریک فاسٹ ود جنگ‘‘ کے زیراہتمام خصوصی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ ماڈریٹر کے فرائض سکندر حمید لودھی نے انجام دیئے۔گورنر نے کہا کہ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر اربوں روپے کے پراجیکٹس لگائے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے 120 ارب روپے صاف پانی کے لئے رکھے لیکن یہ پراجیکٹ 3 سے 6 ماہ میں ہی ختم ہوگیا۔ چودھری سرور نے کا کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شخصیات اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں لیکن جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوتے ملک صحیح طریقے سے نہیں چل سکتے۔ گورنر نے کہا کہ انہیں چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بریفنگ میں بتایا کہ سالانہ ایک لاکھ افراد گندا پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب صاف پانی کی کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا میں نے اس وقت پاکستان میں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس پانی ضرورت سے زیادہ ہے لیکن کمی کی وجہ ہماری نالائقی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک اہم معاملات بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی نذر ہوتے رہیں گے کام ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ اگر انگریز اس ملک میں ہوتا تو گیس،فرنس آئل یا کوئلے سےبجلی بنانے کی بجائے ونڈمل، سولر اور پانی سےبجلی پیدا کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا سکتے ہیں جس سے سستی بجلی اور پینے کا پانی مل سکے گا لیکن اس کے لئے ہمیں لانگ ٹرم پالیسی بنانا پڑے گی۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ 2013 میں پیرس میں ہونے والی ایک کانفرنس میں وہ شریک ہوئے تو حیران رہ گئے یورپی ممالک کو پاکستان سے زیادہ اس کے پانی کے چیلنجز پر خدشات لاحق تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ لاہور کا گندا پانی دریائوں میں پھینکا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی پر کام کرنا ہوگا کیونکہ پانی کا لیول 700 فٹ تک زیر زمین چلا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 70 فیصد پانی کڑوا ہے۔ AIIB بنک نے گندے پانی کو صاف کرنے کےلئے 4 ارب روپے دیئے لیکن ہم 4 سالوں میں اس کے لئے جگہ تک نہیں خرید سکے۔ گورنر نے کہا کہ پنجاب آب پاک اتھارٹی جو پانی فراہم کرے گی وہ بوتلوں میں ملنے والے پانی سے بہتر ہے۔۔ پروگرام کے شرکاء کی طرف سے گورنر پنجاب سے سوال بھی پوچھے گئے جن کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرور فائونڈیشن نے بلوچستان میں پینے کے صاف پانی کےپلانٹ لگائے تو وہاں 800 فٹ گہرائی پرصاف پانی ملا۔ انہوں نے کہا کہ فرانس اور ڈنمارک کی طرف سے صاف پانی کی فراہمی کے لئے فنڈنگ کی گئی لیکن یہ پراجیکٹس بھی تاحال زیر التوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کسی بھی شعبے میں بیرون ملک سے انوسٹمنٹ لانے والے کو ہمیشہ سپورٹ کرتا ہوں۔ مختلف چیزوں پر میکنزم بنا دینا چاہیے۔ گورنر نے کہا کہ وضو کے پانی کو ری سائیکل کرنے کے لئے حکومت کو خط لکھا ہے اور یہ بہت آسان ہے۔ ہم نے وزیر اعظم کو آب پاک اتھارٹی کی بریفنگ دی جس میں انہیں بتایا کہ 1500 فٹ لگانے پر خرچہ ساڑھے 4 ارب روپے آ رہا ہے جبکہ پچھلے دور میں 115 فلٹریشن پلانٹ لگانے پر ساڑھے سات ارب روپے خرچ آئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے پیسے کھائے۔ انہوں نے بڑے کنسلٹنٹ ہائر کئے، بڑے بڑے دفاتر اور بڑی گاڑیاں خریدیں جن پر بے شمار پیسہ خرچ ہوا۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ آب پاک اتھارٹی کے بورڈ آف گورنر میں کوئی سیاسی آدمی نہیں بلکہ ہم تو سٹاف کو بھی سیاست سے دور رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی آب پاک اتھارٹی کا فلٹریشن پلانٹ لگ جاتا ہے اس کی کوالٹی اتنی اچھی ہے کہ لوگ دوسرا کوئی بھی پانی پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے پوش علاقوں میں بھی پانی آلودہ ہے،جہاں سے پانی کی سپلائی شروع ہوتی ہے وہاں پانی صاف ہوتا ہے لیکن گھروں تک پہنچنے تک پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔