• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس ثاقب کی مبینہ آڈیو، سپریم کورٹ سے تحقیقات کا مطالبہ بڑھنے لگا

اسلام آباد (تجزیہ / انصار عباسی) سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو (جس میں وہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے کی ہدایت دیتے ہوئے سنائے دے رہے ہیں) سامنے آنے کے بعد ایک سنگین تنازع پیدا ہو گیا ہے اور اب ان مطالبات میں بھی تیزی آنے لگی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی انکوائری کرائے۔ 

اپوزیشن جماعتیں، میڈیا اور وکلاء برادری کے سینئر ارکان پہلے ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی انکوائری کرے، لیکن اس دوران ایک ٹی وی چینل کی جانب سے آڈیو کے مستند ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کے بعد اب حکمران جماعت کے لوگ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کرے۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ٹی وی چینل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی مفصل انکوائری کرائے اور اس  کے پیچھے چھپے عناصر کو بے نقاب کرے۔ 

ٹی وی چینل کی رپورٹ نے پی ٹی آئی اور ساتھ ہی ثاقب نثار کے حامیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ اس آڈیو کی تحقیقات کرائی جائے۔ تاہم، دوسری طرف کے فریقین چاہتے ہیں کہ عدلیہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ نواز اور مریم کو سابق چیف جسٹس کی جانب سے دبائو ڈالنے کی وجہ سے سزائیں سنائی گئی تھیں۔ 

آزاد سینئر وکلاء حامد خان، رشید رضوی اور سلمان اکرم راجہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ کی توقیر کیلئے اس معاملے کی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکردہ صحافی اور ٹی وی اینکرز بھی حیران ہیں کہ عدلیہ سے جڑے ایسے معاملات کی تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاتیں۔ 

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے معاملات پر مٹی ڈالنا عدلیہ کے مفاد میں نہیں۔ آیا یہ عدلیہ کیخلاف سازش ہے یا پھر کوئی جج مس کنڈکٹ میں ملوث ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس معاملے کی آزاد تحقیقات ہوں۔ 

حکومت نے اسے عدلیہ کیخلاف سازش قرار دیتے ہوئے نون لیگ کی قیادت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اداروں کیخلاف گندی چالیں چل رہی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ججوں کیخلاف مہم جلد بازی میں شروع کی گئی۔ 

انہوں نے اشارہ دیا کہ ان لوگوں نے مناسب انداز سے ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ تاہم، وزیر اطلاعات اور نہ ہی حکومت نے اس معاملے پر انکوائری کرانے کا اشارہ دیا۔ 

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو کا جائزہ لینے والی امریکی کمپنی ’’گیریٹ ڈسکوری‘‘ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس آڈیو کو کسی بھی صورت ایڈیٹ نہیں کیا گیا۔ 

ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے آڈیو میں ہونے والی بات چیت کے مستند ہونے کے حوالے سے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فورنسک آڈیو ٹیپ کے حوالے سے کیا گیا تھا اس میں بات چیت کرنے والے افراد کی شناخت کیلئے نہیں۔

اگرچہ پہلی آواز مسٹر نثار کی ہے لیکن دوسرے شخص کا علم نہیں۔ فیکٹ فوکس اور اس کے صحافی احمد نورانی نے گزشتہ اتوار کو اپنی خبر میں بھی گیریٹ ڈسکوری کی فورنسک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا۔ 

اس کے برعکس، نجی ٹی وی چینل سماء ٹی وی نے پیر کو اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ آڈیو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے گزشتہ خطبات کو کاپی پیسٹ کرکے تیار کی گئی ہے۔ ٹی وی چینل کی رپورٹ کی وجہ سے آڈیو کے مستند ہونے کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔ تاہم، احمد نورانی نے ٹی وی چینل کے دعوے کو مسترد کردیا۔

انہوں نے امریکی کمپنی کی جانب سے کیے گئے فورنسک آڈٹ کا حوالہ دیا اور پاکستان میں حکام کو دعوت دی کہ وہ بھی اس آڈیو کا فورنسک آڈٹ کریں۔ تنازع کی وجہ سے مطالبات بڑھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی تحقیقا ت کرے۔ 

دلچسپ بات ہے کہ ماضی میں بھی ایسے معاملات کو نظر انداز کرکے کوئی انکوائری نہیں کرائی گئی۔ پاناما کیس میں اس اخبار میں واٹس ایپ جے آئی ٹی کی خبر دی تھی لیکن سنگین سوالات اور شکوک و شبہات کے باوجود کوئی انکوائری نہیں کرائی گئی اور یہ بھی تحقیقات نہیں ہوئیں کہ کس کے کہنے پر متعلقہ محکموں کو ہدایات دے کر جے آئی ٹی ارکان کے نام ٹیم میں شامل کرائے گئے۔ 

اسی طرح، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کے پیونی (Puisne) جج شوکت صدیقی اور ان کے حلف نامے کے معاملے کی بھی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ احتساب عدالت کے مرحوم جج ارشد ملک کے معاملے کی بھی کسی کمیٹی یا کمیشن نے تحقیقات نہیں کیں حالانکہ جج کو سروس سے برطرف کیا گیا تھا۔ 

حال ہی میں جی بی کے سپریم اپیلیٹ کورٹ کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے حلف نامے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ججوں پر اثر رسوخ ڈال کر نواز اور مریم کو سزا دلوائی لیکن اس معاملے کی بھی حکومت یا سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی انکوائری نہیں کرائی جا رہی۔

تازہ ترین