حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے ایک ہی سیشن میں 33بل منظور کرانے کے بعد حکومتی جماعت کے وزراء اور ارکان اسمبلی کی باڈی لینگویج میں خاصا اعتماد نظر آرہا ہے ، اس کا اظہار ملتان میں اس وقت ہوا ، جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شہر کے مختلف حلقوں میں منعقد ہونے والی تقریبات میں حکومتی کامیابی کو فخر سے بیان کرتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اور وہ جو کہتے تھے کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ، اب وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ،الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ وہ انقلابی قدم ہے کہ جس کے بعد پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے دھاندلی کی شکایات کی روایت بالکل ختم ہوجائے گی ،اپوزیشن کو اس معاملہ پر حکومت کا کھل کر ساتھ دینا چاہئے ،کیونکہ آج اگر اپوزیشن یہ الزام لگا رہی ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ،تو کم از کم مستقبل کی پیش بندی کے لئے اسے اس ای وی ایم کے ذریعے دھاندلی کے سدباب کرنے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے ،شاہ محمود قریشی کی باتوں سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اکثریت ثابت کرنے کے بعداپوزیشن کو ایک واضح پیغام دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کو صریحاً غلط قراردیا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو بلڈوز کرکے قانون سازی کی ہے ،قانون سازی آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ہوئی ہے اور اس میں تمام قواعد وضوابط کا خیال رکھا گیا ہے ،اپوزیشن کوخود اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہئے کہ اس کے 15 ارکان اس روز پارلیمنٹ میں کیوں نہیں آئے ، دراڑ اپوزیشن کے اندر ہے ،حکومت اور اس کے اتحادیوں میں نہیں ہے ، قانون سازی کے اس عمل سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو ملکی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلے دن سینٹ کے اجلاس میں بھی تین بلز منظور کئے گئے، حالانکہ اپوزیشن یہ دعویٰ کرتی تھی کہ اسے سینٹ میں عددی برتری حاصل ہے، یہ برتری حاصل ہوتی ،تواس کے اراکین ایوان میں موجود ہوتے ،ان کی عدم دلچسپی یہ ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں اپوزیشن اپنا اعتماد کھوچکی ہے ،اس مسئلہ پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ملتان میں مختلف تقاریب میں اظہار خیال کرتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت دھاندلی کے نت نئے منصوبے بنارہی ہے ،ای وی ایم سسٹم کا استعمال بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے ،لیکن جماعت اسلامی اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں ہونے دے گی ،حکومت نے انتخابات سے ڈیڑھ سال پہلے ہی انہیں متنازعہ بنادیا ہے ،ہرلحاظ سے ناکام حکومت نان ایشوز کا سہارا لے کر عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مستقبل میں انتخابی نتائج کو اپنے حق میں استوار کرے اور اپنا تسلط برقرار رکھے ،جبکہ اس کی عدم مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ آج ملک کا ہر شہری مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کا شکار ہے ، ہر شعبے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے ، بجائے اس کے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کوتسلیم کرکے مستعفی ہوجائے ،وہ مختلف حربوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کررہی ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چئیرمین اور قائد حزب اختلاف سینٹ سید یوسف رضا گیلانی بھی اس حوالے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ،ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانے سے خوف زدہ ہے ،کیونکہ اس کی بری کارکردگی اور معاشی شعبہ میں اس کے ہاتھوں ملک کی تباہی کی وجہ سے عوام میں جو نفرت پیدا ہوچکی ہے ، وہ اس کا سامنا نہیں کرسکتے ،اس کا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کو سبوتاژ کیا جائے ،یہ مشین درحقیقت دھاندلی کی مشین ہے ،جس کے ذریعے حکومت اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے، لیکن ہم اس معاملہ میں پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں اور ہمارا موقف بھی وہی ہے، جو پی ڈی ایم کا ہے کہ اس طریقہ انتخاب کو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے ،ویسے بھی دنیا بھر میں یہ سسٹم ناکام ہوچکا ہے اور کئی ممالک اسے اپنا کر چھوڑ چکے ہیں۔
ویسے بھی جب الیکشن کمیشن اس سسٹم سے مطمئن نہیں ہے ، تو حکومت کس طرح اسے لاگو کرسکتی ہے ،گویا پی ڈی ایم ،پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی ، اے این پی اور دیگر اپوزیشن کی جماعتیں ای وی ایم کو مسترد کرچکی ہیں ،اب اس کے بعد اگر حکومت اس طریقہ سے الیکشن کرانے پر بضد رہتی ہے ، تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں کس درجہ بے یقینی اور عدم اعتماد کی کیفیت سارے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔
گزشتہ ہفتہ سیدیوسف رضا گیلانی نے اوسلو (ناروے ) جاتے جاتے رہ گئے ،وہاں انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا ،مگر آخر وقت تک کوشش کرنے کے باوجود ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا اور انہیں بالآخر آن لائن اس کانفرنس میں شرکت کرنا پڑی ،سید یوسف رضا گیلانی اور پارٹی کے دیگر قائدین نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلاجواز ان کا نام ای سی ایل میں رکھا گیا ہے ،حالانکہ وہ اس سے پہلے کئی بار بیرون ممالک کے دورے کرچکے ہیں ،جب سے انہوں نے سینٹ میں قائد حزب اختلا ف کی نشست جیتی ہے اس وقت سے حکومت انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ہے اور سیاسی مقابلہ کرنے کی بجائے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں ،بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں حکومت کے خلاف مہنگائی ،بے روزگاری اور عام آدمی کے ساتھ اس کے مظالم پر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔
دوسری طرف خانیوال کے صوبائی حلقہ 206 میں ضمنی انتخاب کی مہم زوروں پر ہےاور یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لئے مریم نواز بھی خانیوال پہنچیں گی ، جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے ، تواس نے مرحوم نشاط خان ڈاہا کی اہلیہ کو اس حلقہ سے ٹکٹ دیا ہے ،یاد رہے کہ نشاط خان ڈاہا مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے، بعدازاں ان کے رابطے تحریک انصاف سے جاری تھے اور وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے کئی ملاقاتیں کرکے اپنے حلقہ کے لئے فنڈز بھی حاصل کرچکے تھے، اسی طرح کا کام مسلم لیگ ن نے بھی کیا۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈر رانا سلیم کو ٹکٹ دیا ہے ،اس طرح سیاست کے اس کھیل میں روایتی کارکن ایک بار پھر نظرانداز ہوگئے اور سیاسی جماعتوں کے نئی قیادت لانے کے دعوے بھی کہیں نظرنہیں آرہے اور فرسودہ نظام کے تحت پارٹیاں بدلنے والے لوگوں کو ہی ٹکٹ دے دیا گیا ہے، بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ نورین نشاط ڈاہا کو اس حلقہ کے عوام ہمدردی کا ووٹ دیتے ہیں ،یا پھر مسلم لیگ ن اپنی نشست واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔