وفاقی دار الحکومت اسلام آ باد جو ایک ہفتہ پہلے افواہوں کی زد میں تھا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد سیا سی اعتبار سے پرسکون ہے۔ پارلیمنٹ کا 11نومبر کو بلایا گیا مشترکہ اجلاس حکومت کو اپنے اتحادیوں کے تحفظات کی وجہ سے اچانک ملتوی کرنا پڑا تھا۔اس سے قبل قومی اسمبلی میں ایک بل کی تحریک پیش ہوئی تو حکومت کو شکست ہوگئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ بعض حکومتی ممبران بھی ناراض ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اب ایک پیج پر نہیں رہے اور تعلقات میں دراڑپید اہوگئی ہے۔
اس صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کیلئے یہ ایک مشکل ٹاسک تھا کہ وہ اوورسیز پا کستانیوں کو ووٹ کا حق دینے ‘ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے اور بھارتی جا سوس کل بھوشن کو اپیل کا حق دینے سے متعلق بل سمیت وہ تمام بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کراسکیں جنہیں قومی اسمبلی نے تو منظور کرلیاتھا مگر 90دن گزرنے کے با وجود سینٹ نے منظور نہیں کیا تھا۔پھر اچانک صورتحال نے پلٹا کھایا۔ حکومت نے 17نومبر کو مشترکہ اجلاس بلالیا۔ یہ اجلاس ہونے سے پہلے حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے تحفطات دور ہوگئے اور یہ دن حکومت کیلئے فتح کی نوید لایا۔
وزیر اعظم عمران خان نے جس طرح بھی لابنگ کی مگر اپو زیشن کو بہرحال مات دیدی ۔ اس کانٹے دار میچ میں وہ فاتح رہے۔ حکومت کے 221اوراپو زیشن کے202ووٹ نکلے ۔ ایک دن میں 33بلوں کی منظوری کا ریکارڈ قائم ہوگیا۔ اپوزیشن نے احتجاج کیا مگر وہ بے بسی سے دیکھتی رہ گئی ۔ اپوزیشن کے پاس سپریم کورٹ جانے کا آپشن موجود ہے اگر وہ یہ ثابت کرسکے کہ قانون ساز ی میں آئین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا ہےمگر ایک بات تو طے ہے کہ اپوزیشن نے جو ایک بیانیہ بنایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کمزور ہوگئے ہیں ۔ اتحادی چھوڑنے والے ہیں۔
حکومت کے بیس سے پچیس ارکان نے ن لیگ سے رابطہ کرلیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔اب بھی اپویشن قانون سازی کو 19 نومبر کی تاریخ سے جوڑ رہی ہے۔ 19 نو مبر کو سینٹ میں بھی اپو زیشن کو شکست ہوئی جہاںحکومت نے چار قوانین منظور کرا لئے۔ سینٹ میں بظاہر اپو زیشن کو عددی اکثریت حاصل ہے مگر حکومت نے اسے مات دیدی ۔اس کا میابی سے وزیر اعظم عمران خان پہلے سے زیادہ پر اعتماد نظر آتے ہیں۔موجودہ بحران سے سرخرو ہوکر وہ پہلے سے مضبوط ہو گئے ہیں ۔
90 لاکھ اوور سیز پا کستا نیوں کو ووٹ کے حق کا سب سے زیادہ فائدہ بہر حال پی ٹی آئی کو ہو گا۔ ای وی ایم مشین کا ملک بھر میں تو استعمال شاید ممکن نہ ہو البتہ بڑے شہروں میں بھی اسے استعمال کیا گیا تو پی ٹی آئی کو اس کا فائدہ ہوگاکیونکہ اربن سنٹرز میں پی ٹی آئی کا ووٹ زیادہ ہے۔دوسرے یہ کہ ا س سسٹم کی تنصیب چونکہ حکومت کررہی ہے اسلئے اس کے استعمال کو بھی وہی بہتر جان سکیں گے ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ویسے تو اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے البتہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے در میان پیدا ہونے والی دوری بلکہ کشیدگی دور ہوگئی ہے۔ بلاول بھٹو کے شہباز شریف اور مو لا نا فضل الرحمنٰ سے رابطے بحال ہوگئے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر اتحاد سے حکومت کو شکست دی جا ئے اور ان ہائوس تبدیلی کیلئے کوشش کی جا ئے۔ ن لیگ اور جے یو آئی چاہتی تھی کہ ممبران پارلیمنٹ مستعفی ہو جائیں اور سڑکوں کی سیا ست کرکے حکومت کا چلنا مشکل کردیا جا ئے۔ سیا سی تاریخ یہ بتا تی ہے کہ ماضی میں حکومتوں کے خلاف وہی تحر یکیں کا میاب ہوئیں جن کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ اب تک تو یہی لگتا ہے کہ مو جودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں ۔اپوزیشن مہنگائی کے خلاف جلسے کر کے رائے عامہ کو حکومت کے خلاف راہ ہموار کررہی ہے۔
مہنگائی واقعی عوامی ایشو ہے۔ جما عت اسلامی نے بھی ملک بھر میں ریلیاں نکا لی ہیں۔عوام بلا شبہ مہنگائی سے تنگ ہیں ۔ حکومت کے معاشی کا میابیوں کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے ۔ اسٹیٹ بنک کو شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافہ کرنا پڑا ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان کے سامنے حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ حکومت تین سا ل گزرنے کے با وجود انرجی سیکٹر کے گردشی قرضہ کو ختم نہیں کرسکی ۔ خسارے میں جانے والے اداروں کی نج کاری نہیں کرسکی ۔عوام کا سب سے بڑ ایشو اب بھی مہنگائی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
قانون سازی اچھا کام ہے مگر اس سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔ عمران خان کیلئے اب بھی سب سے بڑ اچیلنج مہنگائی کے جن پر قابو پانا ہے۔اپو زیشن کے پاس بھی یہی ایک ایشو ہے جس کے نام پر وہ سیا ست کر رہی ہے۔ ای وی ایم الیکشن ویسے بھی اپو زیشن کیلئے بھاری ثابت ہوگا۔ای وی ایم کے استعمال کا انحصار اب الیکشن کمیشن آف پاکستان پر ہےکہ کیا وہ اسے مرحلہ وار استعمال کرے گی یا حکومت کی خواہش کے مطابق پورے ملک میں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلہ کا بھی انتظار ہے جس کے اثرات دور روس ہوں گے۔ فواد چوہدری نے معافی مانگ لی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ معافی قبول ہوگی یا نہیں۔
ٹی ایل پی سے معا ہدہ پر عمل ہوگیا ہے اور اگلے الیکشن میں تحریک لبیک کا کردار بھی اہم ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ تحریک لبیک اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کی اتحادی جما عت بن جا ئے گی۔پی ٹی آئی کو عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی الیکشن کا معرکہ لڑنا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کااثرات یا مقبولیت کو کم کیاجا ئے۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف اگر پا کستان آجائیں تو ن لیگ میں جان پڑسکتی ہے بلکہ نئی روح پڑ جا ئے گی۔
پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں جگہ بنا نے کیلئے سر گرم عمل ہے۔ پنجاب کی سیا ست میں جہانگیر ترین گروپ کا کردار اہم ہوگا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں ۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ و ہ پیپلز پارٹی کو جو ائن کریں لیکن یہ الیکشن سے عین قبل ہوگا۔ اس حکومت کے دور میں یہ گروپ سیز فائر برقرار رکھے گا تاکہ حکومت کوئی کاروائی نہ کرے۔