پختونخوا میں 19دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا شیڈول نہ صرف جاری ہوچکا ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے ، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ بھی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اب صرف نشانات کی تقسیم باقی ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا کافی عرصہ سے انتظار کیا جارہا تھا، سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار کی کوشش ہوتی رہی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے دور میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جبکہ تحریک انصاف نے بھی اپنے پہلے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کافی تاخیر سے کرائے اور اب تحریک انصاف ہی کے دوسرے دور حکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات دو سال کی تاخیر سے منعقد ہورہے ہیں جو کہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھاتاہم فی الوقت بلدیاتی الیکشن کے انعقاد پر غیر یقینی کے بادل بھی چھائے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ صوبائی حکومت عدالت عالیہ کے فیصلہ کیخلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرچکی ہے، پشاور ہائی کورٹ نے نچلی سطح پر ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسلوں کے انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس سلسلے میں صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ بلدیاتی ایکٹ میں چونکہ نچلی سطح پر الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کی شق شامل ہے ،اسلئے جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کیلئے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی، کافی سوچ بچار کے بعد صوبائی حکومت عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرچکی ہے، چنانچہ ایک طرف بلدیاتی انتخابات کےلئے تیاریاں بھی جاری ہیں ،سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کو ٹکٹ میں دئیے گئے ہیں جبکہ امیدوار بھی بھر پور رابطہ عوام مہم میں مصروف ہیں لیکن معاملہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے کیونکہ جب تک سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی واضح فیصلہ نہیں آتا۔
امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کیلئے یکسوئی کیساتھ انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ہوگا، بلدیاتی انتخابات یقیناً عام انتخابات کیلئے کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ ثابت ہوں گے اس لئے اپوزیشن جماعتیں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں تحریک انصاف مہنگائی کی اس لہر کی بدولت اپنی مقبولیت کافی حد تک کھو چکی ہے اس لئے وہ چاہتی ہیں کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست سے دو چار کرکے ہوا کا رخ متعین کیا جائے۔
دوسری طرف تحریک انصاف اگرچہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی حامی تو ہے لیکن فی الوقت اسے مہنگائی کی وجہ سے شکست کا دھچکا بھی لگا ہوا ہے اس لئے تحریک انصاف نے ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسلوں کی سطح پر پارٹی ٹکٹ تقسیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے یعنی تحریک انصاف کے امیدوار بلے کے انتخابی نشان کی بجائے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے البتہ مئیر اور تحصیل انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار بلے کے نشان کیساتھ میدان میں اتریں گے جس کیلئے تحریک انصاف نے میئر پشاور سمیت صوبہ کے 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں کیلئے پارٹی امیدواروں کا اعلان کرکے انہیں ٹکٹ جاری کئے ہیں۔
بہرحال بلدیاتی الیکشن کے حوالے سےاب سب کی نگاہیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں، ادھر پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی صفوں کو تیزی کیساتھ درست اور منظم کرنے میں مصروف ہوچکی ہے، صوبائی قیادت کی تبدیلی کے بعد پارٹی میں اہم شخصیات کی شمولیتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کے حوالے سے سب سے اہم پیش رفت 19نومبر کو اس وقت دیکھنے میں آئی جب پیپلز پارٹی نےسابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے آبائی ضلع نوشہرہ میں ان کی رہائشگاہ کے عین سامنے عوامی قوت کا بھر پور مظاہرہ کیا جس کے دوران پرویز خٹک کے بھائی ، بھتیجوں اور خاندان کی اکثریت سمیت بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور سابق بلدیاتی نمائندوں نے پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
اس کو نوشہرہ کی سیاست میں ایک ڈرامائی موڑ قرار دیا جارہا ہے کیونکہ پرویز خٹک کی سیاست کا دار و مدار لیاقت خٹک کے عوامی رابطوں پر ہی ہوا کرتا تھا ، دونوں بھائیوں کے اختلافات کا نتیجہ نوشہرہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست اور مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار ولی کی کامیابی کی صورت میں پہلے ہی سامنے آچکا ہے، اب اگر اختلافات مزید بڑھتے ہیں تو یقیناً پی ٹی آئی کو سب سے بڑا دھچکا بلدیاتی الیکشن اور بعد ازاں عام انتخابات میں بھی لگ سکتا ہے۔
اگرچہ بعض مبصرین دونوں بھائیوں کی لڑائی کو نورا کشتی قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ پرویز خٹک مستقبل میں کسی بھی دوسری جماعت میں شمولیت کیلئے راستہ کھلا رکھنے کیلئے اپنے بھائی کو استعمال کررہے ہیں تاہم فی الوقت اس اختلاف کے فوری اور بدترین نتائج پی ٹی آئی کو رواں ماہ کے بلدیاتی الیکشن میں بھگتنے ہوں گے، ادھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ ہلچل مچائے رکھنے میں مصروف رہتی ہے، پی ڈی ایم اس سے قبل اپنے احتجاجی تحریکوں میں ناکامی سے دو چار ہوچکی ہے اور بعد ازاں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی علیحدگی کے بعد تو پی ڈی ایم کا دم خم ہی نکل گیا تھا۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان انتخابات میں شکست کے بعد بڑی مشکل سے پی ڈی ایم احتجاجی تحریک کا ٹیمپو بنانے کیلئے میدان میں اتری ہوئی ہے تاہم حکومت نے کم از کم خیبر پختونخوا کی حد تک بلدیاتی انتخابات کے ذریعے یہ ٹیمپو بھی توڑنے کا بندوبست کیا ہوا ہے ، پی ڈی ایم نے شیڈول کے مطابق 20نومبر کو پشاور میں مہنگائی کیخلاف احتجاجی مارچ کا ا علان کیا تھا تاہم مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی اور آفتاب شیرپاؤ کی شرکت کے باوجود اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور قومی وطن پارٹی بمشکل ایک ہزار کارکنوں کو بھی جمع نہ کرسکیں۔