پھدکو کتا ہنس کر بولا :
’’ آپ نے بتایا تھا خالو بھالو کہ آپ نصیب کی تلاش میں نکلے ہیں ۔۔۔ظاہر ہے یہ ایک مشکل مہم ہے ۔کیا پہلے ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی، کیا آپ کی جان اس طرح خطرے میں پڑی تھی؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا :
’’ میری طرح کوئی بھالو شاید پہلے کبھی اسی مہم پر نہیں نکلا ہے ۔۔۔یہ انوکھی مہم ہے ،عجیب ہی سفر ہے ۔۔۔اتنی جلدی مجھے بہت سے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا گیا کہ حیرت ہوتی ہے ۔کوئی سفر پر نکلتا ہے تو اسے طرح طرح کے تجربات ہوتے ہیں ،مجھے بھی بہت حیرت انگیز تجربات ہورہے ہیں ،بہت کچھ سیکھ رہا ہوں میں ۔۔۔‘‘
پھدکو کتا بولا :
’’ ہاں ۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی بوڑھا بھالو کسی مہم پر روانہ ہوا ہو۔ آپ بہت ہمت والے خالو بھالو ہیں ۔‘‘
وہ میری تعریف کر رہا تھا ۔تعریف سن کر سب کو ہی خوشی محسوس ہوتی ہے ۔میرا دل بھی خوش ہو رہا تھا ۔
میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا :’’اب دیکھو نا تمہارا تیز تیز گھومنا اور خود کو بچالینا ۔۔۔کیسا شان دار تجربہ ہے ۔۔۔میں نے اس بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا ،نہ دیکھا تھا ۔کیا تم مجھے جان بچانے کا یہ کرتب سکھا سکتے ہو ۔۔۔‘‘
پھدکو کتے نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ میں نے جلدی سے کہا،’’ دیکھو نا تم ہمیشہ تو میرے ساتھ نہیں رہو گے ،ہمیں ہر وہ ضروری چیز سیکھ لینی چاہیے جس سے ہمیں زندگی میں آسانیاں ہوں ،اب اگر تم مجھے یہ چیز سکھا دو تو آئندہ کبھی کوئی لومڑ میرے سامنے آیا یا کسی مگر مچھ نے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں ان سے اپنی جان بچا سکوں گا ۔۔۔بولو ۔۔۔کیا میں سیکھ سکتا ہوں ۔۔۔؟‘‘
پھدکو کتے نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا ۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے پھدکو کتے کو مجھ پہ یقین نہ ہوکہ میں اس کرتب کو سیکھ سکتا ہوں ۔میں نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا،’’ میں بوڑھا ضرور ہوں پھدکو ،مگر سیکھنے کی صلاحیت اب بھی ہے مجھ میں ۔سچ بتاؤ ،تمہیں یقین ہے نا کہ میں سیکھ سکتا ہوں؟۔۔۔‘‘
پھدکو کتے نے ہلکے سے بھونکتے ہوئے کہا ،’’ ہاں۔۔۔مجھے یقین ہے کہ تم سیکھ جاؤ گے ۔۔۔‘‘
میں نے پرجوش انداز میں کہا،’’ تو سکھا ؤ مجھے ۔۔۔‘‘
پھدکو کتا کچھ دیرسوچتا رہا کہ مجھے وہ اپنا یہ حیرت انگیز کرتب سکھائے یا نہیں، پھر اس نے خود کو تیار کرلیا۔ میرے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولا،’’ کچھ بھی سیکھنا مشکل نہیں ہوتا۔ عمر زیادہ یا کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،کوئی سیکھنے والا ہونا چاہیے۔ چلو میں بتاتا ہوں کہ یہ کس طرح کرتے ہیں۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر پھدکو نے بہت آسان طریقے سے اور دھیمے انداز میں گھوم کے دکھایا۔
’’ اس طرح گھومو ۔۔۔‘‘
میں نے عین اس کی طرح گھومنے کی کو شش کی اور ناکام رہا ۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کسی رقاص کی طرح ایک پیر کے انگوٹھے پہ گھومنے جیسا عمل تھا، مگر پہلی کوشش کی ناکامی کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری ۔کئی بار کوشش کے بعد میں دھیرے سے گھومنے کے قابل ہوگیا۔ اس کوشش میں بری طرح ہانپنے لگا،مگر حوصلہ نہ چھوڑا ۔یہ جان بچانے کا ایک بہترین طریقہ تھا۔ میں ہر حال میں یہ کرتب سیکھنا چاہتا تھا۔
پنجے کے انگوٹھے پہ گھومنے کی مشق کے بعد پھدکو نے مجھے سکھایاکہ کس طرح اپنے کان کو زمین سے چھوتے ہوئے گھومتے ہوئے قلابازی کھانا ہے ۔
پھدکنا ،اچھلنا اور گھوم کر قلابازی کھانا کسی پھدکو نام کے کتے کے لیے ظاہر ہے بہت آسان کام ہوتا ہے ۔مجھ جیسے خالو بھالو کے لیے یہ معاملہ ٹیڑھی کھیر کی طرح تھا جو سیدھی ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ لیکن مسلسل مشق ایسی چیز ہے جو ساری مشکلیں آسان کر دیتی ہے ۔
میں نے کئی بار کوشش کی اور پھدکو کی طرح کان کو زمین سے چھوتے ہوئے تیزی سے قلابازی کھانے اور گھوم کر واپس پیروں پہ آنے میں کام یاب ہو گیا، پھر پھدکو کے جوش دلانے پر اس عمل کو مسلسل دہراتا گیا۔
مجھ پر ایسا جوش طاری ہوگیا تھا کہ میں اپنے گٹھیا کے مرض کو بھول ہی گیا۔
مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میری ہڈیاں کم زور ہیں ۔میرے جوڑوں میں درد رہتا ہے ۔
بات یہ ہے کہ جب کوئی بیمار ہو ،یا پریشان ہو اور وہ ہر وقت اسی بیماری یا پریشانی کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ بیماری اور پریشانی اس کی زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن جاتی ہے ۔اگر کوئی اپنی بیماری یا پریشانی کو نظر انداز کرے ،اس کی طرف دھیان ہی نہ دے ،اپنا دماغ کسی اور طرف لگا لے تو بیماری یا پریشانی اسے تنگ نہیں کر پاتی ،خاموشی سے ایک طرف ہوجاتی ہے ۔
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا ۔زندگی بچانے کا ایک حیران کن کرتب سیکھنے کے جنون میں مجھے اپنی بیماری یاد نہیں رہی ،اور پریشانی کو بھی بھول گیا۔
میں نے پھدکو کتے سے کہا ,’’ میں ا س وقت خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں ۔۔۔میں اب تمہیں ایک اور کرتب بھی دیکھا سکتا ہوں ۔۔۔‘‘
پھدکو حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگا ۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا :
’’ اب میں اپنی بیساکھی کو کھمبے کی طرح کھڑا کرکے اس کے ساتھ گھوم سکتا ہوں اور ایک گیت بھی گا سکتا ہوں ۔۔۔‘‘
پھدکو نے کہا :’’ گھوم کے دکھا ؤ ۔۔۔‘‘
میں نے اپنے بیساکھی کو زمین پہ کھڑا کیا اور اس کے اوپری حصے کو ایک ہاتھ سے تھام کر پھرکی کی طرح ہوا میں اچھل کر بیساکھی کے گرد دائرے کی شکل میں گھوم گیا۔
پھدکو کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں ۔
’’ کیا میں تمہیں اس طرح گھوم کر اپنا گانا سناؤں ۔۔۔؟‘‘
’’ ہاں ۔۔۔سنا ؤ ۔۔۔‘‘
میں نے موج میں آکر گانا شروع کیا :
بھالو ہوں ، میں بھالو ہوں
جان وَروں کا خالو ہوں
بچے مجھ کو بھاتے ہیں
مجھ سے ملنے آتے ہیں
ہنستے ہیں ہنساتے ہیں
رَس ملائی کھاتے ہیں
بھالو ہوں میں بھالو ہوں
جان وَروں کا خالو ہوں
پھدکو کتا مزے سے میرا گانا سنتا رہا ۔
وہ بھی اچانک ساتھ ساتھ گانے لگا ۔میری ہنسی نکل گئی ۔وہ رک گیا۔
’’ کیا ہوا ۔۔۔؟ کچھ غلط گا دیا ۔۔۔؟‘‘
میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا :
’’ ارے نہیں بھئی ،غلط نہیں گایا ،مگر تم تو کتے ہو ۔۔۔بھالو تو نہیں ہو ۔۔۔‘‘
’’ تو پھر ۔۔۔؟‘‘
’’ تو پھر یہ کہ تم کتے ہوکر گا رہے ہو :’’ بھالو ہوں میں بھالوہوں ۔۔۔‘‘ بھلا یہ کیا بات ہوئی ،تمہیں تو یوں گانا چاہیے تھا :
’’ کتا ہوں میں کتا ہوں ۔۔۔‘‘
پھدکو کتا میری اس بات پر ہنسنے لگا ۔
ہنستے ہوئے بولا :
’’ ہم کتوں کا بھی کوئی گیت ہونا چاہیے ۔۔۔کم از کم میرا تو ضرور ہونا چاہیے ۔۔۔میں جلد ہی اپنا گیت بناؤں گا ۔۔۔‘‘
’’ ضرور بنانا ۔۔۔ہر جان دار کا اپنا گیت ہونا چاہیے جسے وہ گا سکے ،گنگنا سکے اور خوش ہوسکے۔۔۔‘‘
پھدکو کتے نے کہا :
’’ خالو بھالو میرا خیال ہے کہ آپ مزید مشق کرلو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ کسر رہ جائے اور جب آپ کو ضرورت پڑے تو آپ یہ کرتب دکھا نہ سکو ۔۔۔‘‘
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کئی بار مشق کی، جس طرح پھدکو کتا، بھیڑیوں کے سامنے پھرکی کی طرح گھوما تھا ،اسی طرح گھوم گیا اور گھومتا ہی چلا گیا۔
پھدکو کتا میری مشق دیکھتا رہا ،آخر چلا کر بولا :
’’ بس ،بس بہترین ،آپ تو اب مجھ سے بھی اچھی طرح گھومنے لگے ہو ،واہ مزہ آگیا ۔
جب میں سرکس میں تھا تو اسی طرح کرتب دکھاتا تھا ۔۔۔‘‘
’’ کیا واقعی ۔۔۔؟‘‘
میں نے گھومنا بند کیا اور حیرانی سے پوچھا۔
آگے کیا ہوا ، انتظار کریں اگلتے ہفتے تک۔