درندگی کا تناسب اس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے کہ اس کے بنیادی سبب کی تفتیش ہو پا رہی ہے اور نہ ہی روک تھام کے اقدامات کا تعین۔ حد یہ ہے کہ اس کی نوعیت تک پوری طرح واضح نہیں ہے۔ کہیں یہ مذہبی عصبیت کی صورت میں ہے تو کہیں ثقافتی برتری کے قالب میں۔ کہیں اس کا غالب رجحان سیاسی ہے تو کہیں لسانی۔
کہیں اس کی شکل رنگ و نسل کے تفاخر میں ابھرتی ہے تو کہیں گروہی تعصب میں۔ غرض کہ مختلف علاقوں اور حالات میں یہ طوفان مختلف صورتوں میں موج در موج امڈتا انسانیت اور تہذیب کے ہزاروں برس میں تشکیل پانے والے سارے نظام کو خس و خاشاک کی صورت بہا لے جانے پر مصر نظر آتا ہے۔
دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے ذہنوں کے لیے اس صورتِ حال کی بابت تشویش اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب تھرڈ ورلڈ سے لے کر فرسٹ ورلڈ تک ساری انسانی دنیا کا نقشہ اس مسئلے کو اکثر و بیشتر جگہوں پر کسی نہ کسی عنوان شدت سے ابھرتا ہوا دکھاتا ہے۔ پس ماندہ دنیا میں اس نوع کی صورتِ حال کے بارے میں تو دس طرح کی باتیں سوچی جاسکتی ہیں اور دس طرح کے جواز پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن جو کچھ ترقی یافتہ جہانِ اوّل میں ہو رہا ہے، اس کی بابت کیا عذر تراشا جاسکتا ہے ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیے تو اُس میں یہ مسئلہ بھی ترقی یافتہ صورت میں نظر آتا ہے۔
فرانس میں رونما ہونے والے مذہبی تعصب، نیوزی لینڈ میں سامنے آنے والی مذہبی نفرت، کینیڈا میں ابھرنے والے مذہبی تشدد کو آخر کیا نام دیا جاسکتا ہے اور ان واقعات کی توجیہہ اگر کوئی چاہے بھی سہی تو بھلا کس طور کی جاسکتی ہے۔ بربریت اور بہیمیت کے خوں آشام مناظر کو بھلا کیسے نرمی، عافیت اور امید کے لہجے میں بیان کیا جاسکتا ہے، اور اگر بالفرضِ محال ایسی کوئی کوشش کی بھی جائے تو وہ سوائے دھوکے اور فریب کے کیا ہوگی۔ اس لیے کہ انسان دشمن اور تہذیب کش عناصر کو کیموفلاج کرکے آئندہ بڑے اور مزید تباہ کن تجربات کے سوا نہ اس سے پہلے کبھی کچھ حاصل کیا جاسکا ہے اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔
ہندوستان، اسرائیل اور روہنگیا کی ریاستی دہشت گردی کے حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی تعبیر و تشریح محض سیاسی اقدامات یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ کر نہیں کی جاسکتی کہ یہ توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ ان واقعات کے پس منظر میں نہیں بلکہ کھلے بندوں تمام تر پیش منظر میں جیسی بے حسی، سفاکی اور درندگی کارفرما ہے، اس پر کسی بھی طرح پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔
یہ سب تہذیب و تمدن کی نفی کا ہول ناک منظرنامہ ہے— اور اس منظرنامے کی توسیع ان حالات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والی مقتدر اقوام سمیت باقی ماندہ دنیا کے سکوتِ کامل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک طرف مساوی انسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور سماجی اقدار کے بلند بانگ نعرے ہیں اور دوسری طرف متعدد صورتوں میں ابھرتا مکروہ استعمار۔ مکاری و عیاری اور بناوٹ کا ڈھکوسلا ایک جانب اور دوسری جانب روز افزوں بہیمانہ استحصال۔
دنیا کے اس نقشے کو کھینچتے ہوئے اک ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا جائے۔ گزشتہ چند برسوں ہی کے واقعات، مثلاً زینب قتل کیس، موٹر وے پر کھڑی گاڑی میں موجود عورت کے ساتھ جنسی زیادتی، چائلڈ پورنو گرافی، نور مقدم قتل کیس، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مذہبی شدت پسندی کے واقعات اور قتل کے اقدامات سے سیالکوٹ کے حالیہ واقعے تک ایک نظر ڈال لیجیے۔ گویا ہمارے یہاں باقاعدہ التزام کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا واقعہ سامنے آتا ہے۔
بربریت کی مزید بلند سطح تک جاتا اور بری طرح انسانیت کو شرماتا ہوا ہر نیا واقعہ ہول ناک ہی نہیں، بے حد تشویش ناک بھی ہے کہ اس تماشے کی نہایت کب اور کیا ہوگی اور روک تھام کیوں کر ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے، سیاست دان، انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ یا اشرافیہ؟ یہ سب دے سکتے ہیں، کسی حد تک اور اپنے اپنے دائرے میں۔ اس لیے کہ ان سب کا معاملہ انسان کے ظاہر سے ہے، باطن سے نہیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی کا جواب جامع اور حتمی نہیں ہوسکتا۔
کیا آج کے انسانی سماج میں کوئی ایسا بھی ہے جس کا جواب شافی و کافی ہو؟
جی ہاں، وہ دو طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں، ایک اہلِ مذہب اور دوسرے اہلِ ادب۔
افسوس مگر یہ ہے کہ افتراق و انتشار کے اس منظرنامے میں مذہب تو خود ایک فریق نظر آتا ہے۔ استحصال کا ایک محرک یا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اسے تو پہلے خود اپنی اصل روح کی طرف لوٹانے کی ضرورت ہے۔ انسان دوستی، باہمی بھائی چارے، امن اور آشتی کا سب سے بڑا اور بلیغ درس مذاہب ہی دیتے آئے ہیں، لیکن اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انسانی سماج میں ایک دوسرے کو فتح کرنے اور گزند پہنچانے کے لیے سب سے زیادہ جس ہتھیار کو استعمال کیا گیا ہے، وہ بھی اور کہیں نہیں، خود مذہب کو انڈسٹری بنانے والوں کی فیکٹری میں تیار ہوا ہے۔ ہزاروں برس سے جاری یہ عمل آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے اس دور تک ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس فیکٹری کے تیار کردہ ہتھیار زیادہ سے زیادہ مہلک ہو رہے ہیں۔
اب صرف اہلِ ادب رہ جاتے ہیں جو اس صورتِ حال کے سدِباب کے لیے انسانی سماج میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ واقعی کر تو سکتے ہیں بے شک، لیکن کریں گے تو اس وقت جب انھیں خود اپنے کردار کی ضرورت و اہمیت کا احساس ہو۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جب اپنے سماج تک ان کی آواز پہنچ بھی پائے۔ سماج ان کی آواز سن بھی رہا ہو۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ایک طرف ادیب، شاعر، نقاد اور دانش ور نام کی مخلوق دنیا سے فیض اٹھانے کی دوڑ میں مشغول ہوئی جاتی ہے۔
کچھ ان میں سے جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، تشکیل، ردِ تشکیل، نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کی اصطلاحی چک پھیریوں کا لطف اٹھانے میں مگن ہے اور ان کی طرف اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ کا منظر ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو سیدھی اور صاف آواز میں بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز ہو کر رہ گئی ہے۔
کیا ہمارے ادیب اس صورتِ حال کی بابت سوچتے ہیں؟
ادیب ہو یا کوئی اور شخص، کسی بھی مسئلے کی بابت بالعموم اس وقت سوچتا ہے جب وہ اس سے متعلق ہو۔ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے ادیب اپنے عہد اور اُس کی انسانی اور سماجی صورتِ حال سے اس درجہ متعلق ہیں کہ وہ ایسے کسی سوال پر غور کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں متعلق نہیں ہیں؟ ادب کا تو کام ہی نہیں چل سکتا انسانی تجربے اور احساس کی تفتیش کے بغیر اور یہ کام اپنے عہد کے سیاق میں الگ اور خاص معنی رکھتا ہے۔ اگر ادیب اُس سے لاتعلق یا غافل ہوگیا ہے تو بس پھر ادب کا تو کاروبار ٹھپ ہی جانیے۔
ذرا دھیان دیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ زمانہ اور اس کی صورتِ حال ادب اور ادیب کے لیے سوالوں کا ایک بڑا سلسلہ لیے ہوئے ہے، لیکن جیسا کہ عرض کیا، ایک تو ہمارے ادیبوں کی توجہ دنیا کی طرف زیادہ ہوگئی ہے، سو ان میں دکان داری کا شوق پروان چڑھا اور مزید چڑھ رہا ہے۔ دوسرے ہمارے ادیبوں کو مغرب کے فراہم کردہ تصورات کے جھنڈے اٹھانے کی لت پڑ گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تہذیب کی بقا اور ثقافت کے سوالوں میں جان کھپائے بغیر اس کام کے ذریعے دکان داری چل نکلتی ہے، یعنی وہی کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ یہ تو ہوا ادیبوں کا معاملہ، اب ذرا لگے ہاتھوں سماج کو بھی دیکھ لیجیے۔
عہدِ جدید کی اس دنیا میں یہ بات پوری طرح کھل کر سامنے آچکی ہے کہ سماج کا کسی بھی سنجیدہ سرگرمی اور خاص طور پر ادب سے ایسا کچھ سروکار نہیں رہا۔ ہمارے اہلِ دانش نے کم و بیش چالیس پینتالیس سال پہلے ہی اس حقیقت کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سماج میں سنجیدگی دم توڑ رہی ہے۔ ذہنی رویے بدل رہے ہیں، ایک زمانہ تھا، ہمارے عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو بالاہتمام ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ کتاب پڑھنے سے پہلے آپ جیسے ہوتے ہیں، کتاب پڑھنے کے بعد ویسے نہیں رہتے۔ آپ کے اندر کچھ بدلتا ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ کتاب فوری طور پر اور براہِ راست آپ کے ذہن پر اثر انداز ہو۔ نہیں، وہ دھیرے دھیرے کھلنے والی خوش بو کی طرح آپ کے دل سے بھی معاملہ کر سکتی ہے، آپ کی روح پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ کسی اعلان، کسی گونج یا کسی گھن گرج کے ساتھ نہیں۔ خاموشی سے، ملائمت کے ساتھ، بس ایک سرگوشی کی صورت۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے زیرِ اثر بعد ازاں آپ کی شخصیت کی کایا کلپ ہو جائے۔
ایک دور میں انقلاب پسندوں نے ہمارے یہاں بھی سماج میں ایک آلۂ کار کے طور پر ادب کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ادب انقلاب ونقلاب کے مطلب کی چیز نہیں ہے۔ یہ کام مذہب اور سیاست ہی کا ہوسکتا ہے۔ ادب انسانی رویوں کی تشکیل اور ذہن سازی میں ایک کردار تو بلاشبہ ادا کرتا ہے، لیکن یہ کردار خاموشی اور دھیرج سے ادا ہوتا ہے۔ انقلاب نعروں کے ساتھ آتا ہے، گونجتا اور گرجتا ہوا۔
بعد ازاں یہ بات صرف انقلاب پسندوں ہی کو نہیں اور بھی بہت سوں کو سمجھ آگئی کہ ادب سے درانتی، پھائوڑے، کسّی اور کھرپے جیسا کوئی کام نہیں لیا جاسکتا۔ خیر، آج سوچیے تو ادب سے ایسی خواہشات لوگوں کی سادگی اور بھلے وقت کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ کہا جاسکتا ہے، اُس وقت معاشرے سے ادب کا تعلق ایسا ہی گہرا اور وسیع تھا کہ اُس کے حوالے سے یہ سب سوچا جاسکا۔ تاہم آج ادب کے اثر و رسوخ کا دائرہ اس قدر سکڑ سمٹ گیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ ہمارے نہیں کسی اور سماج کی باتیں ہیں۔
ادب اور سماج کے ماند پڑتے ہوئے رشتے میں کچھ حصہ تو ضرورادیب کا بھی رہا ہوگا، لیکن حقائق کا بہ نگاہِ غائر جائزہ لیا جائے تو ساری ذمہ داری صرف ادیب کے سر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ادب سے دُوری میں سماج کے بدلتے رویوں اور اس کی ترجیحات کے نظام کا بھی بڑا اہم دخل رہا ہے۔ سماج کی تبدیلی کے اس عمل میں ایک نہیں متعدد فیکٹرز نے کردار ادا کیا ہے۔ کسی سماج میں جب ایک شے کو مبتذل یا متروک سمجھنے کا رویہ پیدا ہوتا ہے تو پھر سب سے پہلے اُس کی بقا کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔ ہمارے یہاں ادب کے ساتھ یہی ہوا ہے۔
اسے مسلسل اور زور دے کر سماج اور افراد دونوں ہی کے لیے ایک ازکارِ رفتہ شے باور کرایا گیا۔ چوں کہ یہ کارروائی باضابطہ تھی، اس لیے یہ کام ہمارے ادب کے دونوں بنیادی اظہارات کے سلسلے میں ہوا۔ ہماری شاعری کو خرافات، توتا مینا کے قصے اور عشق و عاشقی کی باتیں کہا گیا، یعنی ایک بالکل لغو چیز جس کا عصری شعور سے کوئی علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی عصری انسانی طرزِ احساس میں اس کی کوئی جگہ ہے۔ اس کے ساتھ ہماری داستانیں بے سروپا اور دیو مالائی کہانیاں قرار پائیں۔ گویا غیر حقیقی چیزیں جن کی انسانی زندگی میں ضرورت و افادیت کچھ بھی نہیں۔ یوں ادبی اظہار کی دونوں صورتیں متروک۔
اس نتیجے تک عامتہ الناس کو لانے میں فلم اور ٹی وی کے بعد سوشل میڈیا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، یعنی انھی ذرائع نے جنھوں نے بعد میں ہیری پورٹر سے لے کر عہدِ حاضر کے ایوینجرز اور کیپٹن امریکا تک کے مافوق الفطرت کرداروں کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کی لت عوام کو ڈالی۔ کیا ان کی بابت یہ سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس دور کی ٹیکنولوجی سے لیس یہ سیریز اور فلمز عوام کے ذہن و دل پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان میں جو غیر حقیقی کردار اور اُن کی سراسر مافوق الفطرت فتوحات دکھائی جارہی ہیں، کیا وہ دیو مالائی جہت نہیں رکھتیں۔ کیا اُن کے زندگی اور حقیقت سے رشتے اور ضرورت و افادیت کا سوال نہیں کیا جانا چاہیے؟
انسانی احساس کی تشکیل اور روح کی تطہیر میں ادب ہمیشہ ایک کردار ادا کرتا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کے ذرائعِ ابلاغ اور تفریحی چینلز اور سوشل میڈیا پر جو کچھ لوگوں کو دکھایا جارہا ہے اور دیکھنے کا عادی بنایا جارہا ہے، اس سے کس نوع کے کردار انسانی سماج میں تشکیل پا رہے ہیں؟ جی ہاں، یہ وہی کردار ہیں جو آپ روزانہ اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں، الجھتے، بگڑتے اور تشدد کا رویہ اختیار کرتے ہوئے۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے، انگلینڈ میں فٹ بال کے میچ کے بعد مخالف ٹیم جو میچ کی فاتح بھی تھی، کے حامیوں پر برطانیہ کے باسیوں کی طرف سے اشتعال، دست درازی اور تشدد کا جو شرم ناک واقعہ ہوا ہے، وہ مہذب دنیا کے ہوش مندوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی تفریق سے قطعِ نظر اب تک ہر جگہ کھیل کی اسپرٹ کو اہمیت دی گئی ہے۔ اسی اسپرٹ کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں، قوموں اور ثقافتوں کو قریب لانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ ماضی میں ایسے ایک دو نہیں، کئی ایک واقعات ملتے ہیں جب میچ کے ذریعے اقوام کے مابین ڈپلومیسی کی گئی۔ یہی نہیں، بلکہ یہ تک ہوا کہ اس ڈپلومیسی کے ذریعے دو ملکوں پر جنگ کے منڈلاتے ہوئے بادلوں کو ٹالنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔
انگلینڈ میں ہونے والے اس واقعے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج وہی میچ اتفاق نہیں، اختلاف کا، قربت نہیں دوری کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان کے ذریعے دشمنی، نفرت اور عدم برداشت کے مظاہرے سامنے آرہے ہیں۔ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ عدم برداشت کا یہ رویہ آخر کیوں تیزی سے عوام میں اس درجہ پھیل رہا ہے۔ یہی رویہ آگے چل کر درندگی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمیں اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ انسانی سماج میں جس تناسب سے عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے، اسی تناسب سے درندگی کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔
تو کیا ان واقعات، سماجی رُجحانات اور حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اب ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ آنے والے وقت میں نام نہاد انسانی سماج باقی رہ جائے گا، اور اس پر اصلاً درندوں کا راج ہوگا؟
یہ ہمارے عہد کا اس وقت سب سے بڑا اور بنیادی سوال ہے۔ اس سوال پر سوچنا تو سیاست دانوں، اصلاح پسندوں، فلاحی کام کرنے والے اداروں اور لوگوں کو بھی چاہیے، ان کے ساتھ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں جس درجہ بھی ہے، انھیں بھی سوچنا چاہیے، پھر صحافیوں، تعلیمی اداروں کے نصاب بنانے والوں اور اساتذہ کو بھی سوچنا چاہیے۔ تاہم اس سوال پر سوچنے، غور کرنے اور اسے کھنگالنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری ادیب کی ہے۔
اس لیے کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے اور بنیادی سوال کا سامنا ادب ہی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ادب ایسے کسی بھی سوال پر غور کرتے ہوئے انسانی جذبہ و احساس اور فکر و شعور کے جتنے بڑے دائرے اور جتنے زندہ حوالوں کے ساتھ یہ کام کرتا ہے تاریخ، سماجیات اور سیاسیات، سمیت کوئی دوسرا شعبہ ایسے دائرے اور حوالوں کے ساتھ نہیں کرتا۔
آج اس بات کو بار بار واضح کرنے اور باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنولوجی، گیجٹس، آرٹی فیشل انٹیلی جینس، معاشیات کی گیمکری اور سیاسیات کی منافقت کے عہد میں انسانی احساس سے اگر کسی کو سروکار ہے یا ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف ادب ہے۔ یہی بات اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انسانی سماج کو ادب کی فی الواقعی ضرورت ہے— انسانی احساس، جذبے، فکر، شعور، عقل، خوابوں، امنگوں اور باہمی انسانی رشتوں کی بقا کے لیے۔ درندگی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے۔ انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی کی صورت میں قائم رکھنے کے لیے۔
فی الجملہ کہا جاسکتا ہے کہ ادیبوں پر پیغمبری وقت آیا ہوا ہے۔ انھیں اپنے احساسات اور رویوں کا اظہار اپنے تخلیقی عمل میں اسی نہج پر کرنا ہوگا۔