آئی ایم ایف سے تازہ ترین معاہدے سے منی بجٹ کی آمد کا عندیہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے دے دیا اور آئندہ آنے والے دنوں میں عوام بالخصوص غریب اور مڈل کلاس طبقہ پس کر رہے جائےگا ۔قانون شکنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، وزیر اعظم عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عوام اتنے مجبور ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کی کال پر اس طرح سڑکوں پر نہیں آرہے جیسے آنا چاہیے تھا ،پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تذبذب کا شکار ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی حکومت کے خلاف کوئی بڑا اقدام نہیں کر سکی ، جب سے یہ حکومت آئی ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں تو کرتے ہیں مگر اب تک حکومت کو گرانے کیلئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دو عملی کا شکار ہیں ،کبھی وہ آپس میں پیار محبت بڑھا نے کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو چور چور کہنا شروع کر دیتے ہیں، پی ڈی ایم کی اسٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور کہاکہ ہمارے جماعت میں استعفوں کے بارے میں مکمل اتفاق نہیں ہے، لہذا استعفے نہیں دے سکتے،اسٹیرنگ کمیٹی نے مارچ 2022 کے آخر میں لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا،اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اپوزیشن جما عتیں ابھی خود بھی انتخابات کے لیے تیار نہیں۔
سیاست میں ہلچل ضرور ہے مگر پی ڈی ایم حکومت کے خلاف کوئی سخت اقدامات اٹھانے کے حوالے سے تاحال فیصلہ نہیں کر سکی ،خود پی ڈی ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن مایوس اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے نالا ں دکھائی دیتے ہیں وہ سخت اقدام کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ لبیک تحریک کی طرز پر ’’ایجی ٹیشن ‘‘ کیا جائے اور الیکشن کرانے اور مہنگائی کم کرنے کا مطالبہ منوایا جائے ،مگر پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کوئی فیصلہ کرنے سے کترا رہی ہے ۔جس سے پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں مایوسی کا شکار ہیں مولا نا فضل الرحمٰن نے تو مسلم لیگ کی قیادت کو پی ڈی ایم سے الگ ہونے اور مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی ہے۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کی صاحبزاد مریم نواز کے درمیان نورا کشتی جاری ہے ۔بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہےکے دونوں چچا ،بھتیجی اند ر سے ایک ہی ہیں باہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان میں شدید اختلافات ہیں ،میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ مریم نواز کبھی کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کر دیتی ہیں اور میاں شہبا ز شریف گروپ کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم مریم نواز کے بیانیہ سے متفق نہیں ہیں۔ آئندہ تین ماہ ملکی سیاست میں بہت اہم ہونگے۔
ان تین ماہ میں اہم واقعات اور تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں ،وزیر اعظم نے بھی اپنے وزراء کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ تین ماہ کوئی وزیر میری بغیر اجاز ت کے بیرون ملک نہیں جائے گا وزیر اعظم کا یہ اقدام بھی اہم فیصلوں کی نشاندہی کرتا ہے کور کمیٹی کے حالیہ دھواں دار اجلاس میں وزراء نے بھی کھل کر باتیں کی اور شدید مہنگائی کے حوالے سے عوام کے شدید ردعمل سے آگاہ کیا اور وزیر اعظم سے کیاکہ عوام بہت تنگ ہیں اور ہم اس وقت الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں یہ اپوزیشن کی نالائقی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتی ، کیونکہ عوام کو ان کی دوغلی پالیسیوں پر اعتماد نہیں ہمیں مہنگائی کو کم کرنے اور عوام کی مشکلات میں کمی کیلئے اقدمات کرنے ہونگے۔
موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کےساتھ جو چھ ارب ڈالر لینے کا معاہدہ کیا ہے یہ چھ ارب ڈالر تین سالوں میں ملیں گے اور اس کیلئے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کر لی گئیں ہیں ان کڑی شرائط کی وجہ امریکہ سے تعلقات کی خرابی اور دوری ہے اس وقت ہم سی پیک اور دفاعی شعبہ میں تعاون کی وجہ سے پوری طرح چین کے بلاک میں چلے گئے ہیں ، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک امدادی پروگراموں اور بالخصوص فیٹف میں ہماری شدید مخالفت کر رہے ہیں 27 میں سے 26 مطالبات پورے ہونے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکا لا جارہا آئندہ چل کر پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا ۔آئی ایم ایف سے معاہدے کو گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور نے لندن میں تقریر کرتے ہوئے’’ طشت از بام ‘‘ کر دیا۔
انہوں نے یہ بیان داغ دیا کہ ہم نے چھ ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کو سب کچھ لکھ کر دے دیاہےگورنر پنجاب کا یہ بیان حکومت کیلئے تباہ کن ثابت ہواہے ۔کیونکہ اپوزیشن نے گورنر پنجاب کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان تک جب یہ بات پہنچائی گئی کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ مجھے تین سال سے کھڈے لائن لگایا ہوا ہے ۔ حالانکہ میں پاکستان کیلئے کچھ کام کرنا چاہتا تھا ۔
وزیر اعظم نے گورنر پنجاب کے اس بیان پر سخت برہمی کا اظہار کیا انہوں نےکہا کہ حکومت کے اہم عہدے پر رہتے ہوئے انہیں یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا سیاسی حلقہ یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ گورنر پنجاب کو جلد فارغ کیا جاسکتا ہے۔ شاہد گورنر پنجاب بھی یہی چاہ رہے ہیں کہ انہیں شہید کیا جائے کہ وہ کوئی دوسرا سیاسی گھر تلا ش کر لیں ، وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ توکر رہے ہیںمگر انہیں اپنی کابینہ کے اندر بعض وزرا کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوششوں کا سامنا ہے جبکہ اتحادی جماعتیں بھی ایسے موقع پر بلیک میلنگ پر اتر آئی ہیں ،سیاسی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کچھ مہینے مزید اقتدار میں رہ کر ایسے چند بڑے فیصلے کر نا چاہتے ہیں جو انہیں آئندہ الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے کے قابل بنائیں گے وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو اہم اور تاریخی کامیابیاں ملیں ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک دن میں 22 انتہائی اہمیت کے حامل بلز منظو ر کئے گئے جس دن یہ بل منظور ہوئے اس دن وزیر اعظم کے چہرے پر اطمینان اور خوشی نمایا ں تھی جبکہ اپوزیشن کا رویہ انتہائی مایوس کن تھا پارلیمنٹ کے باہر تو بڑےبڑے بلندبانگ دعوئے کئے گئے کہ ہم کسی صورت الیکٹرانگ ووٹنگ اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق کا بل اور دیگر بل منظور نہیں ہونے دیں گے مگر عوام کو اس وقت مایوسی ہوئی جب اپوزیشن جماعتیں غیر ضروری طور پر واک آئوٹ کر گئیں اور جب بہت سےاہم بل منظور ہو گئے تو وہ خود ہی ہے ایوان میں واپس آگئے۔
میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے اپنی تقریروں میں پہلے ہی یہ عندیہ دے دیا کہ وہ اس قانون سازی کو عدالت میں چیلنج کریں گے ۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ ایوان کے اندر کچھ نہیں کریں گے ۔ اپوزیشن جماعتیں حکومتی ارکان توڑنے کی باتیں تو کرتے رہے مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے ۔ وزیر اعظم آئندہ چند ماہ میں مہنگائی پر قابو پا سکے اور انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے 90لاکھ ووٹوں میں اکثریت مل گئی اور نوجوانوں اور کسانوں کو قرضوں کی فراہمی کے علاوہ ہیلتھ کارڈ کی فراہمی کا مثبت نتیجہ مل گیا تو آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف اپوزیشن جماعتوں کو ٹف ٹائم دے گی ، پاکستان کی تاریخ میں انتہائی المناک واقع ہوا ہے سری لنگا کے ایک سیالکوٹ میں مقیم فیکٹر ی منیجر کو جس وحشیانہ اور ظالمانہ طریقہ سے قتل کیا گیا۔
اس سے نہ صرف حکومت بلکہ پوری پاکستانی قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں ، پاکستان کا دنیا بھر میں جس قدر ’’امیج ‘‘خراب ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی وزیر اعظم عمران خان نےسانحہ سیالکوٹ پر سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا کو فون کر کے اس واقعہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور پاکستان کی قومی کی طرف سے سری لنکا کی عوام اور متوفی کی بیوی ،بچوں اور دیگر اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیااور سری لنکا کے صدر کو یقین دلایا کہ واقعہ میں ملوث کسی مجرم سے نرمی نہیں کی جائے گی۔