• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو پیسے انھوں نے اپنے بچوں کے لئے رکھے تھے وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہے ہیں۔ میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ ہم زندگی کیسے گزاریں گے ؟

میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی، جب ایک مرتبہ بازار میں عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا ،خاتون اور بچوں کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی، آپ نے بس ایک کرتا ہی خریدا ہے ،کوئی نئی چپل بھی خرید لیں ،جس پر شوہر نےجواب دیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال جو چپل خریدی تھی ،وہ کون سی زیادہ پہنی ہے، اب بھی نئی لگتی ہے ، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے، بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤ گی۔

ابھی میں ساتھ ہوں ،جو خریدنا ہے، آج ہی خرید لو ۔میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی ،بچوں کے لیے کچھ لایا، تو اپنی ماں اور بہن کے لیے بھی تحفہ لایا۔ میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا ،جب سڑک پار کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو سامنے رکھا۔ 

میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا، جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے اپنے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ’’ابھی میں زندہ ہوں‘‘ لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ’’ مرد کبھی روتا نہیں ہے‘‘ اسے رونے نہیں دے گا۔

تازہ ترین