جنرل صاحب آپ نے تاریخ کو قریب سے دیکھا ہے، 12اکتوبر1999ءکے واقعات آپ کوآج بھی یاد ہیں ، آپ کو کتاب لکھنی چاہئے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ستی کی گفتگو سننے کے بعد میں نے ان سے درخواست کی۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو،لیکن کتاب کیا لکھوں کیا ہم نے کوئی قابلِ فخر کام کیا تھا جس پر کتاب لکھی جائے؟ صلاح الدین ستی نے جواب دیا۔ وہ اپنے اقدام پرنادم تھے۔
ستی فوج کے وہ واحد افسر ہیں جنہوں نے اس وقت 111 بریگیڈ کمانڈر کی حیثیت سے 12 اکتوبر 1999ی آئینی بغاوت کے منصوبے پر عملدرآمد کیا۔ بعد میں وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور پیپلزپارٹی کے دور میں انہیں برونائی میں سفیر بھی مقرر کیا گیا۔
عرض کی کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی کسی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا کوئی اچھی بات نہیں تو کیا یہ کتاب لکھنے کی دلیل نہیں ہے؟جو آپ لکھیں گے وہ ایک تجربے کی روشنی میں ہوگا۔ لوگ آپ کی بات کو مستقبل میں حوالے کے طور پر استعمال کریں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ستی میری باتوں سے متفق مگر باضابطہ انٹرویو دینے یا کتاب لکھنے کے بارے میں کوئی وعدہ کرنے سے گریزاں تھے۔ یہ 14 اکتوبر 2014ء کو ستی صاحب کے راولپنڈی ڈی ایچ اے میں واقع گھر میں ہونے والی پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔
صلاح الدین ستی بریگیڈئیر کی حیثیت سے کارگل میں اہم ذمہ داریاں ادا کرچکے تھے اور اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود احمد کے قریبی تھے اسی لئے انہیں کارگل کے بعد راولپنڈی کے ٹرپل ون بریگیڈ میں تعینات کیا گیا تھا۔
ستی صاحب نے اس ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں 12 اکتوبر 1999 ءکے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع تھی نہ اس کے بارے میں کوئی ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ ستی بھی اسی تاریخ یعنی 12 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے تھے اور47 سال کی عمر میں 12 اکتوبر 1999 کو انہیں ایک بڑے امتحان کا سامنا تھا۔ مجھے ستی صاحب کے الفاظ آج بھی نہیں بھولتے، بولے’’ میں ایک ایسے ہینگ مین (جلاد )کی طرح تھا جس نے صرف حکم کی بجا آوری کی، اگر میں کمانڈ کا حکم نہ مانتا تو اس وقت فوج کا میر جعفر و میر صادق بن جاتا ۔
انہوں نے بتایا کہ اس شام ان کے گھر پر ختم شریف کے دوران ان کا بیٹا ان کے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ ٹیلی وژن پر جنرل مشرف کو برطرف کرکے ان کی جگہ جنرل ضیاالدین کو تعینات کرنے کی خبر چل رہی ہے۔
ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ شاید یہ مذاق کررہا ہے لیکن پھر فوری میں نے اس کی بات کو سنجیدہ لیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میرا بیٹا جنرل مشرف کا نام تو جانتا ہے لیکن جنرل ضیاالدین کا نام نہیں جانتا۔ اس کے بعد بریگیڈئیرصلاح الدین ستی فوری فون کی طرف لپکے اور راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل محمود کے گھر فون کیا جنکی سخت مزاج اہلیہ کو انکا دفتری اوقات سے ہٹ کر فون کرنا پسند نہ آیا تاہم انہوں نے معاملے کی اہمیت کے پیش نظر جنرل محمود کو یہ پیغام پہنچا ہی دیا۔ محمود گالف کھیل رہے تھے اور انہوں نے ادھر سے ہی ستی کو فون پر ضروری ہدایات دیں۔
میں نے پوچھا ستی صاحب آپ نے حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے کتنے فوجی بھیجے تھے۔ بولے فوجی بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
وزیراعظم ہائوس پر سیکورٹی کے لیے تعینات فوجی پہلے ہی کام کرچکے تھے باقی ہمارے فوجی تو اس وقت گئے جب کور کمانڈرجنرل محمود احمد اور اس وقت کے ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل علی محمد جان اورکزئی وہاں گئے۔
ان کی بات سن کر مجھے خیال آیا کہ ملک میں مارشل لا لگنا اس وقت بند ہوجائیں گے جب ہمارے وزرائے اعظم اپنی سیکورٹی کا انحصار پولیس پر کرنا شروع کردیں گے۔ دیگر بہت سی وجوہات میں سے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
12 اکتوبر 1999ء کو جب فوجیوں کا دستہ وزیراعظم ہائوس پہنچا تو اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے تعینات کیے گئے آرمی چیف جنرل ضیا الدین خواجہ نے بھی وزیراعظم ہائوس سے بظاہر آخری کوشش کے طور پر ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر صلاح الدین ستی کو فون کیا اور کہا، یہ کس کے جوان وزیراعظم ہائوس آئے ہیں؟ جس پر ستی نے جواب دیا، سر یہ جوان کور کمانڈر صاحب کے حکم پر بھیجے گئے ہیں۔
نئے آرمی چیف نے ستی کو کہا، بیٹا آپ کہاں ہیں؟ سر میں آس پاس ہی ہوں، ستی نے گول مول جواب دیا۔ کیا آپ مجھے مل سکتے ہیں؟ جنرل ضیاالدین نے ستی سے کہا جس پر ستی نے کہا کہ میں اپنے باس سے پوچھنے کے بعد آپ سے رابطہ کروں گا۔ ظاہر ہے ستی نے جنرل ضیا الدین سے رابطہ نہیں کرنا تھا سو نہ کیا۔ پوچھا آپ خود وزیراعظم ہائوس کیوں نہ گئے تو ستی بولے کہ وہاں جانے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ افسروں و جوانوں نے تمام مطلوبہ کام احسن انداز میں خود سرانجام دے دیا تھا۔
14 اکتوبر2014 کو ان کی باتیں ان کا نام لیے بغیر شائع نہ کرنے پر اتفاق ہوا مگر بعد ازاں انہوں نے ایسا کرنے سے مجھے روک دیا۔ صحافتی اخلاقیات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ یہ گفتگو شائع نہ کی جاتی۔تاہم اب 7 برس بعد صلاح الدین ستی صاحب نے ہمت کرکے اردو نیوز کے سینئر اور کہنہ مشق صحافی وسیم عباسی کو انٹرویو دیا، تو مجھے خوشی ہوئی کہ جنرل صاحب نے چپ کا روزہ توڑا۔
مثالی بات تو یہ ہوتی کہ ستی اس وقت غیرآئینی اقدام پر عمل کرنے سے انکار کرتے، اپنے نئے آرمی چیف سے ملاقات کرلیتے یا پھر وقت پر سچ بولتے ۔ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا لیکن بہرحال دیر آید درست آید۔ جس کے لیے واقعی ہمت اور اخلاقی جرأت چاہیے ہوتی ہے۔
پاکستان میں سچ بولنے والوں کی ہی کمی ہے۔ جب تک سچ بولنے والے سامنے نہیں آئیں گے مسائل کی نشاندہی ہوگی نہ ان کا حل۔ جنرل صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے دیر سے ہی سہی سچ تو بولا۔