ایمان صغیر
ماہر ین فلکیات اب تک کہکشاں میں متعدد سیاروں کو تلاش کرچکے ہیں ۔حال ہی میں ماہرین نے پہلی مرتبہ کہکشاں کے باہر کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جو ممکنہ طور پر ہمارے کہکشاں( ملکی وے) سے باہر ایک سیارے کا وجود رکھتے ہیں ۔اب تک ماہرین ہمارے سورج سے آگے تقریباً پانچ ہزا رایکسو پلینٹ ( خلائی اجسام) کا سراغ لگا چکے ہیں جو مختلف مداروں میں چکر لگا رہے ہیں، لیکن یہ تمام سیارے اسی کہکشاں کے اندر ہی ہیں ،جس میں ہمارا شمسی نظام موجود ہے۔
سیارہ زحل کے حجم کا یہ نیا ممکنہ سیارہ امریکی خلائی ادارے کی دوربین ’’چندرا ایکس رے‘‘ کی مدد سے دریافت کیا گیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ سیارہ ’’میسیئر 51‘ ‘نامی کہکشاں میں پایا جاتا ہے۔یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے تقریباً دو کروڑ 80 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق نئے ممکنہ سیارے کے وجود کا اندازہ ٹرانزِٹس کے ذریعے لگایا گیا ہے جب کوئی سیارہ کسی ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے تو اس ستارے سے نکلنے والی شعاعوں کو کسی حد تک روک دیتا ہے، جس سے کچھ وقت کے لیے روشنی کم ہو جاتی ہے۔ طاقت ور دوربینوں کی مدد سے روشنی میں کمی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
ماضی میں بھی ہزاروں ایکسو پلینٹس کا سراغ لگانے کے لیے یہی تیکنیک استعمال کی گئی ہے۔ ملکی وے سے بہت دور اس ممکنہ سیارے کا سراغ لگانے کے لیے ڈاکٹر روزانے ڈی اسٹیفانو اور ان کے ساتھیوں نے ایکسریز (شعاعوں) میں کمی کا مطالعہ کیا ہے۔ نئے ممکنہ سیارے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ خلاء کا وہ حصہ جہاں سے ایکسریز خارج ہو رہی ہیں وہ چھوٹا ہے، اس لیے اگر اس کے سامنے سے کوئی سیارہ گزرتا ہے تو زیادہ تر شعاعوں کو روک لیتا ہے، جس کی وجہ سے ٹرانزِٹ کا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر اسٹیفانو کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے دوسری کہکشاؤں میں موجود سیاروں کا سراغ لگانے کے لیے جو طریقہ اپنایا ہے وہ واحد ایسا طریقہ ہے جسے استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘۔یہ طر یقہ اس لحاظ سے خاص ہے کہ ہم اس سے ایکسرے بائنریز کے ارد گرد موجود سیاروں کا سراغ لگانے کے لیے سیارے سے منعکس ہونے والی روشنی کو بہت دور سے بھی ناپ سکتے ہیں۔
نئے ممکنہ سیارے والی ایکسرے بائنری کے اندر ایک سیاہ دائرہ یا نیوٹرون اسٹار موجود ہے جو ایک بڑے ستارے کے گرد چکر لگا رہا ہے اور یہ بڑا ستارہ ہمارے سورج سے تقریباً 20 گنا بڑا ہے۔ ماہرین کے مطابق نیوٹرن ا سٹار اصل میں ایک بہت بڑا ستارہ تھا جو دم توڑ گیا اور اس سے سیاروں کے اس نظام کا مرکز وجود میں آیا۔ ناسا کے ماہرین کے مطابق ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ٹرانزِٹ تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی، جس کے دوران ایکسریز کا اخراج کم ہوتے ہوتے صفر تک پہنچ گیا۔
ان مشاہدات اور دیگر معلومات کی بنیاد پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ نیا ممکنہ سیارہ تقریباً زحل جتنا بڑا ہے اور یہ سیارہ اپنے مرکز سے جس فاصلے پر چکر لگا رہا ہے وہ زحل اور ہمارے سورج کے باہمی فاصلے سے دوگنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر اسٹیافانو کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ایکسو پلینٹس کی دریافت میں بہت کامیاب ثابت ہوا ہے، کیوں کہ جب ہماری کہکشاں (ملکی وے) کے اندر توڑ پھوڑ ہو رہی ہوتی ہے تو دوسری کہکشاؤں میں جھانکنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری کہکشاؤں کا ہم سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ دوربینوں تک آنے والی روشنی کم ہوتی جاتی ہے ،جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ (ہماری زمین سے دیکھا جائے تو) دوسری کہکشاؤں میں تھوڑی سی جگہ پر بہت سے سیارے جمع ہیں اور ہر ایک سیارے کو الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس تحقیق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے سیارے کی موجودگی کےحوالے سے اندازہ لگایا گیا ہے ،اس کی تصدیق کے لیے مزید اعدادوشمار اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اسٹیافانو کے مطابق ایکسرے میں کمی سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید پوری کہکشاں میں محض چند درجن ہی ایسے خلائی اجسام موجود ہیں جن سے یہ روشنی نکل رہی ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ان خلائی اجسام کو الگ الگ دیکھنا ممکن ہو جائے۔
اس کے علاوہ چند خلائی اجسام سے خارج ہونے والی ایکسریز اتنی روشن ہیں کہ ان سے نکلنے والی روشنی جب منعکس ہوتی ہے تو اسے ناپا جاسکتا ہے۔ اور آخر میں یہ امکان بھی ہے کہ ایکسریز کی اتنی بڑی مقدار ایک چھوٹی سے جگہ سے نکل رہی ہوں اور جب ایک ہی سیارہ اس کے سامنے سے گزرتا ہو تو اس کی تمام روشنی کو روک دیتا ہو۔ اس بارے میں مزید تحقیق کرنے کے بعد ہی کچھ حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے۔