سندھ میں کچے کے جنگلات سے ڈاکو راج کا خاتمہ اور پولیس کا جاری آپریشن، نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود کشمور پولیس نے وہ کر دکھایا، جس کی کئی دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی، پولیس مقابلے میں دہشت کی علامت بنا سبزوئی گینگ کا سرغنہ بدنام زمانہ ڈاکو ٹکر سبزوئی اپنے گینگ کے 4 ساتھیوں سمیت مارا گیا، مارے جانے والے تمام ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کئی لاکھ روپے مقرر تھی اور یہ ڈاکو چاچڑ برادری کے 12 افراد کے قتل، پولیس پر حملوں پولیس اہل کاروں کی شہادت میں پولیس کو انتہائی مطلوب تھے۔
آپریشن کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ گزشتہ کئی ماہ سے کچے کے جنگلات میں آپریشن ، مستقل پولیس چوکیوں کے قیام اور مستحکم دیرپا امن کے لیے کوششوں میں مصروف عمل ہیں، لیکن یہ سب کچھ مکمن بنانے کے لیے حکومت کو مکمل طور پر پولیس کی آپریشنل ضروریات کو پورا کرنا ہوگا، اس لیے صرف اعلانات نہیں، عملی قدم اٹھانا ہوں گے، وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے کچے میں آپریشن کے لیے پولیس کو ہر ممکن مدد اور آپریشنل ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے جو وعدے اور اعلانات کیے۔
اس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا، جس کے باعث سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کشمور اور شکارپور اضلاع کی پولیس کو کرنا پڑ رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو صوبائی حکومت کے ماتحت تمام محکموں میں پولیس وہ واحد محکمہ ہے، جو بہت زیادہ اہمیت اور توجہ کا حامل ہے، کیوں کہ امن و امان کی فضا بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور اگر بات کی جائے سندھ پولیس اور اس کے فرائض کی تو سندھ میں سکھر اور لاڑکانہ رینج سندھ کی تمام رینج سے مختلف ہیں اور شاید اس طرح کے چار جڑواں اضلاع ملک کی کسی بھی پولیس رینج میں نہیں ہوں گے۔
جیسے ان دو رینج کے درمیان ہیں، کشمور ، شکارپور ، سکھر ، گھوٹکی ایسے اضلاع ہیں، جن میں دریائی علاقے کے ساتھ کچے کے خطرناک جنگلات ہیں، جو سیکڑوں ڈاکووں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کیے جاتے ہیں، کیوں کہ یہاں دریائی جزیرہ بھی ہے، خاص طور پر کشمور ضلع جس کی حدود پنجاب اور بلوچستان سے ملتی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ چاروں اضلاع کچے کے راستوں ایک دوسرے سے تھوڑے بہت ملے ہوئے ہیں، ان چاروں اضلاع میں کچے کے جو سب سے خطرناک علاقے تصور کیے جاتے ہیں۔
ان میں درانی مہر ، گڑھی تیغو ، شاہ بیلو ، اور رونتی سمیت بعض دیگر علاقے شامل ہیں، جہاں سوائے گھوٹکی کے تمام اضلاع میں پولیس مسلسل ڈاکو راج کے خلاف آپریشن اور کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف عمل ہے، خاص طور پر کشمور اور شکارپور اضلاع میں نامساعد حالات ،فور بائے فور گاڑیاں، جدید اے پی سی چین ، بکتر بند ،جدید اسلحہ نفری کی شدید کمی فنڈز کا نہ ہونا اور آپریشنل سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث مسائل سے دوچار ہیں ،اس کے باوجود ان اضلاع کے پولیس کمانڈرز اور پولیس فورس کے حوصلے مورال بلند دکھائی دیتا ہے، اور ڈی آئی جی مظہرنواز شیخ کی سربراہی میں ان دونوں اضلاع میں پولیس ٹارگیٹڈ آپریشن کے ساتھ کچے کے ان جنگلات جہاں ماضی میں پولیس کا جانا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا، وہاں پولیس چوکیاں قائم کرکے اپنے قدم جما رہی ہے۔
گزشتہ دنوں آپریشن کمانڈر کشمور امجد احمد شیخ نے درانی مہر تھانے کی کچے کی حدود میں بدنام زمانہ اور دہشت کی علامت بنے ڈاکوؤں کے خطرناک گروہ جئیند جاگیرانی اور ٹکر سبزوئی کے گروہ کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز کیا، آپریشن میں 200 پولیس اہل کار و کمانڈوز 6 اے پی سی چین گاڑیاں، درجنوں پولیس موبائیلوں، جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ حصہ لیا، مقابلے کے دوران دونوں جانب سے جدید اسلحے کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ، جس میں ڈاکوؤں نے اینٹی ائیر کرافٹ گنز اور راکٹ لانچرز کا بھی استعمال کیا، مقابلے میں سبزوئی گینگ کا سرغنہ بدنام زمانہ دھشت کی علامت بنا ہوا ڈاکو ٹکر سبزوئی اپنے 4 ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا۔
مقابلے میں مارے جانے والے ڈاکووں پر حکومت سندھ کی جانب سے 5 لاکھ سے 20 لاکھ روپے انعام مقرر تھا، ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کے مطابق کندھکوٹ کچے کے علاقے درانی مہر میں آپریشن کمانڈر کی سربراہی میں بدنام زمانہ ڈاکو ٹکر سبزوئی اور ڈاکو جئیند جاگیرانی کے گروہ کے خلاف آپریشن الصبح شروع کیا گیا اور اس آپریشن میں دہشت کی علامت بنا ہوا بدنام زمانہ ڈاکو ٹکر سبزوئی جس پر ایک کڑور روپے جاگن عرف جاگو سبزوئی پر 30 لاکھ صابل صابر عرف صابو سبزوئی پر 10 لاکھ روپے، صدام اور علی حسن سبزوئی بھی مارے جانے والے ڈاکوؤں میں شامل ہیں۔
ڈاکو صدام سبزوئی پر 10 لاکھ روپے انعام کی سفارش حکومت سندھ سے کی گئی ہے، جب کہ کشمور شکارپور سمیت دیگر اضلاع کے ڈاکووں کے سروں پر انعامی رقم رکھنے اور بڑھانے کی شفارش کی گئی ہے، انہوں نے بتایا کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے پانچوں ڈاکو پولیس کو اغوا برائے تاوان ، پولیس شہادت ، بھتہ خوری، قتل ، دھشت گردی اور مختلف سنگین نوعیت کے مقدمات میں مطلوب تھے،جن کے مارے جانے کے بعد پولیس کا مورال بلند ہوا ہے اور اب کندھکوٹ گھوٹکی برج کا جاری کام بھی اچھے طریقے سے چلے گا، ضلع میں اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں ملوث ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کردیا گیا۔
جب کہ چند ماہ قبل بدنام زمانہ ڈاکو ٹکر سبزوئی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جدید اسلحے سے لیس ہو کر ایس ایس پی کشمور اور دیگر کو دھمکیاں دیں اور وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی، جس پر ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کی دھمکیاں کوئی نئی بات نہیں، یہ ڈاکو جدید اسلحہ کے ساتھ پولیس افسران کو دھمکی آمیز وڈیو جاری کرتے ہیں، لیکن پولیس کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی ہم اپنا کام کرتے ہیں، کیوں کہ پولیس اس وقت بھی کچے میں موجود ہے۔
ہم نے نو گو ایریا ختم کرائے کڑوروں روپے مالیت کی سرکاری اراضی ان ڈاکوؤں کے قبضے سے واگزار کرائی، مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے ختم کرا کر ان کے حوالے کی اور لوگوں کو تحفظ فراہم کیا تاکہ وہ آزادانہ ماحول میں اپنی زرعی زمین کاشت کرسکیں اس وقت ڈاکو کشمور اور شکارپور پولیس کے گھیرے میں ہیں۔ پولیس نے ڈاکووں کے متعدد محفوظ ٹھکانے تباہ ، مسمار اور نذر آتش کرکے وہاں پولیس چوکیاں قائم کیں ہیں اور پولیس مسلسل کچے اور جنگلات میں موجود ہے۔
اس آپریشن میں ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ خود کچے میں آتے ہیں، جوانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور آپریشن کی صورت حال سے آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کو بھی لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا جارہا ہے، پولیس کی کوشش ہے کہ ڈاکووں کا مکمل صفایا کیا جائے جس کے لیے کوشیش کررہے ہیں، ہم نے ڈاکو راج کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے، جو ہمارے مسائل ہیں یا ہمارے پاس جو وسائل ہیں، ان کے ساتھ کام یابی سے آپریشن کررہے ہیں۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ کی جانب سے شکارپور کشمور اضلاع کے کچے میں موجود ڈاکوؤں کے سروں پر انعامی رقم رکھنے یا بڑھانے کے حوالے سے شفارش کی گئی ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے وزارت داخلہ میں فائل پڑی ہے جس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے، کیوں کہ وزیر داخلہ کا منصب بھی وزیر اعلی سندھ کے پاس ہے وزیر اعلی سندھ کی امن و امان سمیت سندھ کے دیگر معاملات پر بہت گہری نظر ہے اور اس حوالے سے وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنا متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔
تاہم ممکن ہے کہ وزیر اعلی سندھ کی بہت زیادہ مصروفیات ہونے کے باعث وزارت داخلہ کے معاملات کچھ التواء کا شکار ہورہے ہوں، تو ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کو دیکھنا ہوگا کہ وہ وزیر اعلی سندھ کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت داخلہ یا مشیر داخلہ کا قلمدان اپنے کسی اور سینئر وزیر یا رکن کے سپرد کردیں تاکہ ان پر بوجھ کم ہو اور جو بھی وزیر مشیر آئے، وہ وزرات داخلہ کے امور کو نمٹائے۔
وزیر اعلی سندھ کی صلاحیتوں کو نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا، اب سندھ سمیت ملک بھر میں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا ہے اور انتخابات بھی قریب آرہے ہیں، ایسے میں ان پر کام کا بوجھ مزید بڑھے گا، اس صورت حال میں اب یہ فیصلہ کرنا خود وزیراعلی یا پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کا ہے، کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
اب اگر بات کی جائے وفاقی سطح پر تو سندھ کے کچے میں ڈاکو راج کے خاتمے اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے سندھ پولیس کے بالا حکام کو سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے چند ماہ قبل طلب کیا تھا اور کچے میں آپریشن ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ موجود ہونے پولیس کے وسائل اور مسائل کے حوالے سے ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ نے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بریفنگ دی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار اینٹی ائیر کرافٹ گنز ، راکٹ لانچر و خود کار ہتھیار موجود ہیں اور پولیس کے محدود وسائل ہیں، جب کہ کچے میں آپریشن کے حوالے سے مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے، جس پر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ وفاقی وزارت داخلہ کو لکھیں گے کہ پولیس کی مدد کریں تاکہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن موثر بنایا جاسکے، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، اور نہ ہی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے دوبارہ سندھ پولیس سے اس حوالے سے کوئی معلومات لیں۔
یہاں سندھ پولیس خاص طور پر کشمور اور شکارپور پولیس کے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے کہ ان نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود جس جرات اور بہادری کے ساتھ پولیس آپریشن میں مصروف عمل ہے، وہ قابل تحسین ہے۔