چند برسوں سے پاکستان میں سیّاحت کی صنعت کو ابھرتی ہوئی صنعت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018میں سیّاحت سے حاصل ہونے والی آمدن 81.8 کروڑ ڈالرز تھی، 2017میں 86.6 کروڑ ڈالرز اور2016 میں 79.1 ملین ڈالر تھی۔ پاکستان میں زیادہ سیّاحت شمالی علاقہ جات میں ہوتی ہے جو کہ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے ہیں۔
گلگت بلتستان کی معیشت کا ستّرفی صدانحصار سیّاحت پر ہے۔ یہاں آنے والا ہر سیّاح محتاط اندازے کے مطابق اوسطاًبیس تا پچّیس ہزار روپے خرچ کرتا ہے ۔ ہر غیر ملکی سیّاح اوسطاً کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ کرتا ہے۔مئی 2020 تک گلگت بلتستان میں رجسڑڈ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کی تعدادتیرہ سےزاید تھی۔ 2014تک یہ تعداد پانچ سوتھی۔
سیّاحت میں اضافے سے ہوٹلوں کی تعدادبڑھی تو تعمیرات کی صنعت کو فائدہ ہوا اور لوگوں کو روزگار ملا۔اسی طرح جنرل اسٹورز، ٹرانسپورٹ اور کئی دیگر کاروباروں کا حجم بھی بڑھا ہے۔ یہ سب کچھ سیّاحت کی وجہ سےہوا۔گلگت بلتستان میں ہوٹلنگ سیزن چند ماہ کا ہوتا ہے جو مارچ سے اکتوبر تک ہوتا ہے۔ تاہم کورونا کی وبا نے دو برسوں میں نہ صرف ہوٹل انڈسڑی کو متاثر کیا بلکہ پورے گلگت بلتستان کو ہلا دیا ہے۔
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں عالمی معیشت میں سیّاحت کی صنعت کا حصہ آٹھ کھرب اسّی ارب ڈالرز تھا اور دنیا بھر میں سیّاحت کی صنعت سے تقریباًاکتّیس کروڑنوّےلاکھ لوگ کسی نہ کسی طور پر وابستہ ہیں۔ چناں چہ ڈر تھاکہ کورونا کی وبا سے صرف ایشیا پیسیفک میں چار کروڑستّاسی لاکھ افراد بے روزگار ہوسکتے ہوجائیں گے۔ پاکستان نے سیّاحت سے 2019میں تقریباً ایک ارب ڈالرزکا زرِمبادلہ کمایاتھا او2020میں اس سے دگنے زرمبادلہ کی کی اُمّید تھی۔اگرچہ مقامی حوالے سے آمدن کے اعدادو شمار دست یاب نہیں ہیں، لیکن اگر سیّاحوں کی بات کی جائے تو ان کا تخمینہ ساٹھ فی صد بنتا ہے۔
دراصل سیّاحت غیر متوقع طورپر معاشی پیداوار کا باعث بھی ہوتی ہے۔ یہ محصول جمع کرنے اور نوکریوں کے مواقعے پیدا کرتی ہے۔ سیّاحت میں چھپے ممکنہ فواید کا محض اسی وقت مکمل ادراک ہوسکتاہے جب اس کےلیے درکار ڈھانچا فراہم کرنے کے لیے رکاوٹوں سے پوری طرح نمٹ لیا جائے۔ پاکستان میں حکام کو محفوظ اور پائے دار سیّاحت کو یقینی بنانےکےلیے ویزے کی پالیسیز میں نرمی، سیّاحتی مواقعوں میں اضافےکے لیےتربیت کے منصوبے متعارف کرنےاور ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
خصوصاشمالی پاکستان کے سیاحتی مقامات پر جہاں مقامی سطح پر آمدن کا بڑا انحصار سیّاحتی سرگرمیوں پر ہے۔ کیوں کہ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص ایک سفر میں اوسطاًایک سو تیس ڈالرز خرچ کرتا ہے تو اس طرح سیّاحتی صنعت میں بہ شمول بالواسطہ اخراجات،مثلا ، ہوٹل اور سفری سہولتیں وغیرہ، سالانہ تین سو پچاس ملین ڈالرز ریونیو حاصل ہوسکتا ہے۔
کورونا کی وبا میں شدت آنے کی وجہ سےاگست 2020 میں ملک میں سیاحت پر کچھ پابندیاں عاید کی گئی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وبا کی شدت کم ہوئی تو ان پابندیوں میں بھی وقتا فوقتا نرمی کی گئی۔
بارہ جنوری کو یہ خوش کن خبر آئی کہ لاہور، نیویارک ٹائمز کی 2021ء کے بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی جانب سے تاریخی اندرون شہر لاہور کو 2021 میں 52 بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کر لیا گیاتھا۔
برفانی جھیل پر کھیلوں کا میلہ
گلگت بلتستان میں عطا آباد کے بعد ایک اور جھیل بھی ہے جو قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آنے کے بعد سیّاحت کا مرکز بن کر لوگوں کے دل لبھاتی ہے۔ گلگت بلتستان گرمائی سیّاحت کے لیے تو مشہور ہے ہی، لیکن ضلع غذر کی منجمد خلتی جھیل پراٹّھائیس تا تیس جنوری کھیلوں کے میلے کے انعقاد سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ علاقہ سرمائی سیّاحت کے لیے بھی کافی موزوں ہے۔
خلتی جھیل ضلع غذر کی تحصیل گوپس سے چند کلومیٹر کی مسافت پر گلگت چترال روڈ پر واقع ہے۔ جھیل کا وجود 1980 کی دہائی میں آنے والی ایک قدرتی آفت کے سبب ہونے والی تباہی کا نتیجہ تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق خلتی گاؤں کے کئی رہایشی مکانات، درخت اور ہزاروں کنال اراضی جھیل کی نذر ہو گئےتھے جس کے باعث علاقہ مکینوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑاتھا۔یہ جھیل سطح سمندر سے 7273 فیٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی گہرائی اندازاً 80 فیٹ ہے۔
یہاں سردیوں میں درجۂ حرارت منفی پندرہ درجے تک گر جاتا ہے۔ اس قدر شدید سردی کے باعث دسمبر کے آغازسے جھیل یخ بستہ ہو جاتی ہے۔ سردی کی شدّت اضافے کے ساتھ برف سخت اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ مقامی لوگ منجمد جھیل کی مضبوطی کا اندازہ لگاتے ہی اسے کھیل کے میدان میں بدل دیتے ہیں۔ پہلے پہل اس جھیل پر منعقدہ کھیلوں سے مقامی لوگ ہی محظوظ ہوتے تھے، مگر سوشل میڈیاکے پھیلاو کے ساتھ منجمد جھیل پر میلہ دیکھنے آس پاس کے علاقوں سے بھی لوگوں نے خلتی گاؤں کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔رواں برس یہاں باقاعدہ سرمائی کھیل کامیلہ منعقد کیا گیا۔ اس سہ روزہ میلے میں آئس ہاکی، فٹ بال اور دیگر کھیلوں سمیت میوزیکل پروگرام ترتیب دیے گئےتھے۔ کھیلوں کے مقابلوں میں ضلع غذرکے علاوہ ہنزہ سے بھی مختلف ٹیموں نے حصہ لیا۔میلے کا فائنل میچ ہنزہ کی ایک ٹیم نےجیتا تھا۔
یہ میلہ دیکھنےکےلیےگلگت بلتستان کے علاوہ پاکستان کے کئی شہروں سے بھی شائقین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ گلگت بلتستان کی حکومت کے اعلیٰ حکام نے بھی اس میں شرکت کی۔ خلتی جھیل سردیوں کے علاوہ گرمیوں کے موسم میں بھی سیّاحوں کی توجہ کا مرکزہوتی ہے۔ گرمیوں میںیہ جھیل ٹراؤٹ مچھلی کا مسکن ہوتی ہے جہاں مچھلیوں کے شکار اور سیر و تفریح کے لیےسیّاحوں کی خاصی تعداد موجود رہتی ہے۔
چناں چہ آفت کے نتیجے میں وجود میں آنے والی یہ جھیل اب عوام کے لیے رحمت کا باعث بن رہی ہے۔یہ جھیل ضلع غذر میں واقعے تفریحی مقامات کی محض ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ پھنڈر، گوپس، یاسین، پونیال اور اشکومن میں کئی ایسے مقامات ہیں جن پر تھوڑی سی توجہ مرکوز کرنے سے یہ ضلع سیّاحتی اعتبار سے خوب ترقی کر سکتا ہے۔ دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ، شندور بھی اسی ضلعے کی حدود میں واقع ہونے کے باوجود یہ علاقہ سیّاحت کے حوالے سے وہ مقام حاصل نہیں کر سکاجو ہنزہ، استور یا بلتستان ڈویژن کو حاصل ہے۔ اس علاقے کے سیّاحت کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں گلگت سے غذر کے مابین مرکزی شاہ راہ کی خستہ حالی، مقامی سطح پر قیام و طعام کے انتظامات کا فقدان،سیّاحتی مقامات کی عدم تشہیر، بین الاقوامی سیّاحوں کی حفاظت کےلیے ناکافی اقدامات اورسیّاحتی مقامات و تاریخی ورثے کی تزئین و آرایش کے لیے وسائل کی عدم فراہمی شامل ہیں۔
سد پارہ۔دل پارہ پارہ
فروری میں جب کےٹو پہاڑ کو موسم سرما میں سر کرنے کے لیے جانے والے تین کوہ پیماؤں کی جان بچانے کے لیے آپریشن کی خبریں آن لائن پھیلیں تو اس نے پاکستان کے حوالے سے ایک اہم رخ کو بھی نمایاں کیا\۔ یعنی ، پاکستان میں دست یاب کوہ پیمائی کے مواقعے کا کم استعمال اورسیّاحت کی صنعت میں موجود وہ بھرپور صلاحیت جو پاکستان کے بارے میں دنیا کے خیالات کو تبدیل کرسکتی ہے۔
یہ واقعہ اگرچہ اندوہ ناک تھا تاہم اس نے پاکستان کا بین الاقوامی تشخص بہتر بنانے میں مثبت کردارادا کیا۔ ذرایع ابلاغ کی سرخیاں اس تبدیلی کی عکاس ہیں۔ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دو غیرملکی کوہ پیماؤں کی کے-ٹو سر کرتے ہوئے گم شدگی کی خبر سے انٹرنیٹ بھر گیا۔بین الاقوامی کوہ پیماؤں، جیسے کہ منگماشرپانے سد پارہ کو دنیا کا بہترین پاکستانی کوہ پیما قرار دیا اور پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کرسچین ٹرنر نے ٹوئٹ کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان نے سدپارہ کو ایک قومی ہیرو کے طور پر یاد کیا۔ایسے میں اس واقعے نے بہ طور پرکشش سیاحتی مقام ،پاکستان کے تشخص کو بڑھاوا دینے میں مدد دی۔
مالم جبہ ریزورٹ کی بندش
اپریل کے اوائل میںسوات کے مشہورسیّاحتی مقام مالم جبہ پرریزورٹ کی بندش سے،سیّاحوں کو کافی مشکلات پیش آئی تھیں اور آس پاس کھانے پینے کی اشیا کی کینٹین چلانے والے اورسیّاحوں کو ایک سے دوسرے مقام تک لے جانے والے افراد کا روزگار بند ہوگیا تھا۔ 1999میں حکومت پاکستان نے اس سیّاحتی مقام کو چلانے کے حقوق حاصل کیے تھے۔ ریزورٹ بند کیے جانے کے اقدام کے خلاف سوات میں تاجروں نے احتجاج کیا اور وزیر اعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان سےحالات کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیاتھا۔انہوں نے تفریحی مقام کی بندش کو حکومت کی غفلت قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ سوات میں سیّاحت کے شعبے سے وابستہ تاجر پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں، جس میں موجودہ فیصلے کی وجہ سے مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
مالم جبہ کا تفریحی مقام پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا ’’اسکی ریزورٹ‘‘ مانا جاتا ہے۔ جب سوات ایک ریاست کی حیثیت رکھتا تھا تب یہاں کے حکم راں، میاں گل جہانزیب کواُنّیس سو ساٹھ کی دہائی میں آسٹریا کے سفیر نے مالم جبہ میں ’’اسکی ریزورٹ‘‘ بنانے کا مشورہ دیا تھا، جس کے بعد آسٹریا کی حکومت نے اس مد میں فنڈ فراہم کرکے یہاں پچاس کمروں پرمشتمل ایک ہوٹل بھی تعمیر کرایاتھا۔ تاہم ایک طویل عرصے تک یہ مسئلہ رہا کہ آیا اس نئے تفریحی مقام کو نجی یا سرکاری طور پر چلایا جائے۔
بالاخر1999 میں حکومت پاکستان نے اس سیّاحتی مقام کو چلانے کے حقوق حاصل کر لیے تھے۔ تاہم طالبان کے دور میں سوات کی سیّاحت کو سخت نقصان پہنچا،یہاں تک کہ مالم جبہ کے ہوٹل کو بموں سے اڑا دیا گیا اور مالم جبہ طالبان کا مسکن بن گیا۔اگرچہ بعد میں فوج نے سوات سے طالبان کا صفایا کر دیا، لیکن یہاں کی سیّاحت کو دوبارہ پنپنے میں کافی عرصہ لگا۔ اس دوران 2014 میں حکومت خیبر پختون خوا نے یہ ریزورٹ ایک نجی کمپنی کو لیز پر دیا جو معاہدے کے مطابق اب بھی قانونی طور پر اس ریزورٹ کی مالک ہے۔
سوات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مذکورہ کمپنی نے مالم جبہ میں سیر وسیاحت کو فروغ دیا، لیکن زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر انہوں نے انٹری پر بھاری فیس مقرر کر دی، جس کے خلاف سوات کے رہائشیوں نے رواں سال ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔ عدالت نے اس درخواست پر ایکشن لیتے ہوئے انٹری فیس پر پابندی لگا دی تھی۔ نتیجتاً اپریل 2021 میں کمپنی نے اسکی ریزورٹ کو سیّاحوں کے لیے بند کرکے موقف ظاہر کیاتھا کہ چوں کہ انٹری فیس ختم کرنے سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہوتے لہذا وہ سیاحوں کو سہولتیں نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کی مینگورہ بینچ نے ایک سماعت کے دوران اکّیس اپریل کو ہونے والی اگلی سماعت تک داخلہ فیس لینے پر پابندی لگادی تھی۔
آٹھ ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع پاکستان کے بلند ترین اسکی ریزورٹ کی انتظامیہ کا کہنا تھا انٹری فیس وصول کیے بغیر ریزورٹ نہیں چلا سکتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر ریزورٹ کی سرگرمیاں چلانا اورپانچ سو سے زاید ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں۔
چئیر لفٹس، زپ لائن وغیرہ کی سہولتیں فراہم کرنے والا اپنی نوعیت کا یہ پاکستان کا واحد اسکیئنگ ریزورٹ ہے۔ سوات میں امن وامان کی خرابی کے بعد 2008 میں طالبان نے وہاں پر موجود چئیر لفٹس اور دیگر سامان کو جلا دیا تھا اوربہتّر کمروں پر مشتمل سرکاری ہوٹل کو بموں سے اڑا دیا تھا۔سوات میں 2009 میں ملٹری آپریشن کے بعد جب حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے تو خیبر پختون خواکی حکومت نے2011میں مالم جبہ اسکی ریزورٹ کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور2014 میں اسے عوام کےلیےدوبارہ کھول دیاگیاتھا۔
بعدازاں اسے صوبائی حکومت نے ایک نجی کمپنی کو تینتیس سال کی لیز پر دے دیاتھاجس نے وہاں کافی سرمایہ کاری کی۔کمپنی کا کہنا تھاکہ اس نے اس ریزورٹ میں تین سو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہےجہاںپراب تک مختلف بین الاقوامی اور قومی اسکیئنگ کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔ اسی ریزورٹ کے قریب کمپنی نے 2019میں ایک فائیواسٹار ہوٹل بھی کھول دیاتھا۔مالم جبہ اسکی ریزورٹ میں بنایا گیا اسکیئنگ فیلڈ 12سو میٹرز لمبا اور 400 میٹر چوڑا ہے۔کمپنی کے مطابق لیز پر لیے گئے اس ریزورٹ کے سالانہ اخراجات دو کروڑ روپے ہیں اور حکومت کے ساتھ کیے گئے لیزکے معاہدے کی شق نمبراٹھارہ کے مطابق کمپنی کو خاص طور پر یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ انٹری فیس وصول کرے گی۔
یاد رہے کہ مالم جبہ اسکی ریزورٹ میں جانے کے لیے ایک سیّاح سےتین روپے بہ طور انٹری فیس وصول کی جاتی ہے۔اس انٹری فیس پرعوام کی جانب سے شروع دن سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔اس کے خلاف سوات کے سینئر وکیل اختر منیر نے عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی کہ اسےختم کیا جائے۔اسی کیس کی سماعت پر یکم اپریل کو عدالت نے انٹیرم آرڈر جاری کرتے ہوئے حکم دیاتھا کہ کیس کی اگلی سماعت (اکّیس اپریل ) تک انٹری فیس نہیں لی جائے گی۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں لکھا تھا کہ ریزورٹ انتظامیہ نے عدالت کو اس بات پر مطمئن نہیں کیا کہ کس قانون کے تحت اس نے ایک سڑک پر بیرئیر لگایا ہے اور عوام سے ریزورٹ کی طرف جانےکے لیے انٹری فیس وصول کی جاتی ہے۔تاہم بعد میں یہ ریزورٹ کھل گیا تھا ،لیکن نومبر میں اسے پھر بند کردیا گیا تھا۔
اس ریزورٹ کی ایک وجہ شہرت اس کے لیے لی گئی زمین کی لیز میں مبینہ بدعنوانی بھی ہے جس کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک ، موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان ، سابق وزیر کھیل عاطف خان اور سینیٹر محسن عزیز کے علاوہ مختلف بیوروکریٹ اس کیس میں نیب کی عدالت میں پیش ہوچکےہیں۔اس مقدمے میں یہ کہا گیا ہے کہ اس ریزورٹ کے لیے 275کنال کی زمین سابق وزیر سیاحت عاطف خان کے رشتے دار کی کمپنی کو لیز پر دی گئی تھی جس سے قومی خزانے کو مبینہ طور پر نقصان پہنچا ہے۔
اس کیس کاحوالہ دے کر حزب اختلاف کی جماعتیں نیب پر تنقید کرتی رہتی ہیںکہ یہ کیس نیب کوجلد نمٹانا چاہیے۔ نیب کی جانب سے اس کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مالم جبہ ریزورٹ کو محکمہ جنگلات کی زمین پر بنایا گیا جو خیبر پختون خوا فاریسٹ آرڈی نینس کی خلاف ورزی ہے۔ محکمہ جنگلات کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس ریزورٹ کے لیے مخصوص زمین کے علاوہ محکمہ جنگلات کی زمین اس کو دی گئی ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
پابندیاں اُٹھنے لگیں
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) برائے تدارک کورونانےبائیس مئی کوملک بھر میں سیاحت کا شعبہ چوبیس مئی سے ایس او پیز کے تحت کھولنے کا فیصلہ کیاتو اس شعبے سے وابستہ افراد میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز سیاحوں سے شناختی کارڈ اور کورونا منفی رپورٹ طلب کرنے کے پابند ہوں گے اور جو افراد ویکسین لگوا چکے وہ ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ لازمی جمع کرائیں گے۔
چوبیس مئی کو پی آئی اے نے کراچی سےاسکردوکے لیے پروازوں کا آغاز کردیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر قومی ایئرلائن نے سیاحت کے فروغ کے لیے یہ اہم سنگ میل عبور کیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پی آئی اے کی کراچی سے اسکردو کی پروازنے لینڈکی ۔ ایئربس 320 میں 178مسافر اور عملے کےآٹھ افراد شامل تھے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دو جون کو گلگت بلتستان جانے والوں کے لیے ویکسی نیشن اور پی سی آر ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا تھا۔شمالی علاقہ جات کے مسافروں کےلیے جاری کی گئی نئی ٹریول ایڈوائزری کے مطابق تیس سال سے زاید عمر کے مسافروں کے لیے ویکسین سرٹیفکیٹ دکھانالازمی قرار دیا گیا تھا۔انیس برس سے سے زاید عمرکے افراد کے لیے بہترگھنٹے پہلے پی سی آرٹیسٹ کرانالازمی تھااور ٹیسٹ رپورٹ دکھانے سے بورڈنگ کارڈکا اجرا مشروط کردیا گیا تھا۔
اچھی خبریں
جولائی کے مہینے کے اوائل تک ملک میں سیاحت کا سیزن عروج پر پہنچ چکاتھا۔ عید کی چھٹیوں اور اس کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اورصوبہ پنجاب سے سیاحوں کی بڑی تعداد شمالی علاقہ جات کے علاوہ سوات، چترال، دیر اور دیگر علاقوں میں سیروتفریح کے لیے نکل کھڑی ہوئی تھی۔تاہم آزاد جمّوں و کشمیر میں کورونا کے بڑھتے ہوئے متاثرین کے باعث سیاحت پراُنّیس سے اُنتیس جولائی تک پابندی عاید کر دی گئ تھی۔تاہم گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواہ کے محکمہ سیاحت نے ایسی کوئی پابندی عاید نہیں کی تھی اورجولائی کے وسط تک خیبر پختون خواہ اورگلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے مطابق علاقے میں سیاحت عروج پر پہنچ چکی تھی۔
ادہر آزاد کشمیر کی حکومت کے جاری کردہ نوٹی فیکیشن کے مطابق اُنّیس سے اُنتیس جولائی تک کشمیر، بالخصوص وادی نیلم میں سیاحت پر پابندی عاید کی گئی تھی۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس کسی بھی سیاح کی اٹھارہ جولائی کےبعدکی بکنگ نہ کرے۔یہ قدم کورونا کے متاثرین کی بڑھتی تعداد پر قابو پانےکے لیےاٹھایا گیا تھا۔ دوسری جانب گلگت بلتستان میں جولائی کے مہینے میں 834 نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔یہ تعداداس سے قبل کے تین ماہ کے دوران سب سے زیادہ بتائی گئی تھی جو باعثِ تشویش بات تھی۔
لہذا گلگت بلتستان کے تمام داخلی راستوں پر چیک پوسٹس قائم کر دی گئی تھی جن پر قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے ساتھ محکمہ صحت کے اہل کار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ سیاحوں کے لیے لازمی تھاکہ وہ گلگت بلتستان کی حدود میں داخلے پر کورونا ویکسین کا سرٹیفیکٹ پیش کریں یا کسی طرح اس کی تصدیق کرائیں۔
اس کے ساتھ موقعے پر ویکسین لگانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ ادہر صوبہ خیبر پختون خواہ میں جولائی میں کوروناکے کیسز کی تعداد 1525 تک پہنچ گئی تھی جسے اس سے قبل کے تین ماہ کے مقابلے میں اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔چناں چہ وہاں بھی سیاحوں کے لیے کورونا ویکسین کا سرٹیفیکیٹ اپنے پاس رکھنا لازم قرا دیا گیا تھا۔
جولائی کے آخری ایام میں یہ خبر آئی کہ خیبر پختون خوا کی حکومت کو عید کی تعطیلات میں صوبے کے مختلف مقامات پر سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں سے تقریباچارارب روپے کی آمدن ہوئی ہے۔خبر کے مطابق ملک بھر سےمالا کنڈ اور ہزارہ ڈویژن آنے والے افراد کی وجہ سے بڑی تعداد میںلوگوں کو روزگار بھی ملا۔ شمالی وزیرستان اور گلیات کا رخ کرنے والے سیاح اس کے علاوہ تھے۔کالام اور بحرین میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں سیاح پہنچے تھے۔
اگست کی دو تاریخ کو گلگت بلتستان کے حکام نے خراب موسمی حالات کے سبب سیاحوں کے داخلے پر پابندی عاید کر دی تھی۔کمشنر دیامر استور ڈویژن نے بابوسرٹاپ اور تھور چیک پوسٹ پر تعینات افسران کو سیاحوں کو روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔نوٹیفکیشن کے مطابق بابوسر اور تتا پانی کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ سے سیاحوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ متعلقہ عملے کو ہدایت کی گئی تھی کہ بابوسر ٹاپ اور تھور چیک پوسٹ کو تمام سیاحوں کے لیے مکمل طورپربند کردیاجائے۔
ستمبر کی تیرہ تاریخ کو سیاحت کے فروغ کے لیے کراچی ائیرپورٹ پر ڈیسک قائم کردی گئی تھی۔یہ قدم سیاحت کے فروغ اور عوام کو سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا تھا۔
نومبر کی بیس تاریخ کو ملک میں پہلی بار ہوا بازی کی صنعت میں اصلاحات اور سیاحت کے فروغ کے لیے کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایئر کرافٹ اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن (اے او او اے) کا قیام عمل میں لایا گیاجس کا مقصد ملک میں سیاحت کی حوصلہ افزائی کے لیے ہوا بازی کی صنعت میں بہتری لانااور اصلاحات کرناہے۔ایسوسی ایشن کے ذمے داران کا کہنا تھا کہ ہوا بازی کے شعبے کی ترقی اور ہوا بازی کی صنعت کے ذریعے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے وہ متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔اے او او اے پاکستان میں ہوا بازی کے کاروبار اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو قومی ایوی ایشن پالیسی اور قانون سازی میں ترامیم اور بہتری کی سفارش کرے گی۔
پاکستان میں عمان کے سفیر محمد عمر احمد المحرون کی تیئس نومبر کو پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان فیری سروس شروع کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی۔ عمان کے سفیر نے کہاتھا کہ پاکستان اور عمان کے درمیان فیری سروس کا آغاز جلد ہوگا۔ فیری سروس سے پاکستان اور عمان کے درمیان تجارت اور سیاحت کو بے پناہ فروغ ملے گا۔
وزارت ریلوے نے تین دسمبر کو ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے ٹورازم ٹرین چلانے کا اعلان کیا۔ وزارت ریلوے نے سیاحت کے لیے راول پنڈی سے اٹک سٹی اور نوشہرہ تک ٹورازم ٹرین چلانے کے بارے میں اعلامیہ جاری کیاتھا۔
دسمبر میں سیّاحت کے ضمن میں ایک اچھی خبر کے بعد گیارہ تاریخ کو یہ بُری خبر آئی کہ لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کے لیے لوگوں کو اضافی فیس ادا کرنا ہو گی۔ صوبائی دارالحکومت میں واقع مزار اقبال اور بادشاہی مسجد آنے والوں پر پچاس روپے ٹکٹ فیس عاید ہوگئی۔ اس کے علاوہ لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں سیاحت کے فروغ کے لیے لاہور کےمشہور ترین سیاحتی مقام بادشاہی مسجد کا رخ کرنے والے سیاحوں کی سہولت کے لیے روشنائی گیٹ دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دسمبر کی بارہ تاریخ کو معراج عالم دو روزہ بامِ دنیا فلم فیسٹیول گلگت میں اختتام پذیر ہوا جس کا مقصد پہاڑوں کا عالمی دن منانا اورگلگت بلتستان میں پہاڑی سیاحت کو فروغ دینا تھا۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں دو روزہ بامِ دنیا فلم فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جہاں شارٹ فلموں کی نمائش کی گئی اور پائے دار پہاڑی سیاحت سے متعلق پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا۔