2021ء کا آغاز منہگائی سے ہوا، شاید یہی وجہ ہے کہ سال بھر’’ تبدیلی سرکار‘‘ کی مشقِ ناتوانی کے سبب ،گرانی قیامت ڈھاتی اور مجبور و مقہور عوام کو ستاتی رہی۔ 2021ء کا سور ج طلوع ہوا، تو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 106روپے ہوچُکی تھی اور حکومت نے عوام کو پیٹرول 2.31روپے منہگا کرکے نئے سال کا تحفہ دیا، جب کہ سال ختم ہونے سے چند دن پہلے، یعنی 15دسمبر کو پانچ روپے کمی کے باوجود پیٹرول 140.82روپے فی لیٹر رہا۔دیگر اشیاء کے نرخ بھی اِسی حساب سے بڑھتے چلے گئے، تو تبدیلی سرکار کی چکاچوند گھٹتی چلی گئی۔
اب یہ عالم ہے کہ کپتان کے چاہنے والے فیض احمد فیض کے الفاظ مستعار لے کر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ؎’’مجھ سے پہلی سی محبّت مری محبوب نہ مانگ…مَیں نے سمجھا تھا کہ تُو ہے، تو درخشاں ہے حیات…تیرا غم ہے، تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے…تیری صُورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات…تیری آنکھوں کے سِوا دنیا میں رکھا کیا ہے…تُو جو مل جائے، تو تقدیر نگوں ہوجائے…یوں نہ تھا، مَیں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے…اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبّت کے سوا…راحتیں اور بھی ہیں، وصل کی راحت کے سوا۔‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ضمنی انتخابات کے رجحانات دیکھیں، تو یہ نشستیں عام طور پر بونس کی صُورت برسرِ اقتدار جماعت ہی کی جھولی میں گرتی ہیں، مگر’’ نئے پاکستان‘‘ میں تاریخ، روایات، اقدار اور رجحانات سمیت سب کچھ بدل گیا۔ گزشتہ برس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 16حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اور حکم ران جماعت، پی ٹی آئی محض ایک نشست پر کام یابی حاصل کرپائی۔21فروری2021ء کو کرم ایجینسی میں قومی اسمبلی کے حلقہ NA-45میں ضمنی الیکشن ہوا، تو پی ٹی آئی کے فخر زمان نے کام یابی حاصل کی اور یہ حکم ران جماعت کی اکلوتی جیت تھی۔
19جنوری کو سندھ اسمبلی کے حلقہ PS-52عُمرکوٹ میں ضمنی الیکشن ہوا، تو پیپلز پارٹی کے سیّد امیر علی شاہ کام یاب ہوئے۔21فروری کو PP-51وزیر آباد کی نشست مسلم لیگ(نون)کی امیدوار، بیگم طلعت محمود نے جیت لی۔خیبر پختون خوا اسمبلی کے حلقہ PK-63نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (نون)کے امیدوار، اختیار ولی نے تحریکِ انصاف کے امیدوار کو شکست دے کر سب کو حیران کردیا۔PP-70بدین کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے حاجی محمّد ہالیپوتو نے کام یابی حاصل کی، تو PP-84خوشاب سے مسلم لیگ(نون) کے بیرسٹر معظّم شیر کلو جیت گئے۔NA-75ڈسکہ کے ضمنی الیکشن پر مسلم لیگ(نون)کی نوشین افتخار اور پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی کے درمیان سخت مقابلہ متوقّع تھا، لیکن پولنگ کے بعد دھند چھا گئی اور پریزائیڈنگ افسر لاپتا ہوگئے، جب اس کارستانی پر شور مچا، تو الیکشن کمیشن نے پہلے نتائج روکے اور پھر انتخاب کالعدم قراردیتے ہوئے ودبارہ ووٹنگ کا فیصلہ سُنایا۔
حکومت نہیں چاہتی تھی کہ اِس حلقے میں دوبارہ الیکشن ہو۔لہٰذا، اُس نے الیکشن رُکوانے کے لیے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا، مگر حکم ران جماعت کو نہ صرف عدالتی لڑائی میں شکست ہوئی، بلکہ دوبارہ پولنگ ہوئی، تو انتخابی معرکہ بھی مسلم لیگ (نون)کی امیدوار نوشین افتخار جیت گئیں۔PS-88ملیر کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے امیدواروں میں سخت مقابلہ متوقّع تھا،تاہم، پیپلز پارٹی کے امیدوار، یوسف مرتضیٰ بلوچ یہ انتخابی معرکہ جیت گئے اور پی ٹی آئی کے امیدوار، جان شیر جونیجو دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکے۔PS-43سانگھڑ کے ضمنی الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار، جام شبیر علی 45240ووٹ لے کر کام یاب ٹھہرے، جب کہ تحریکِ انصاف کے امیدوار، مشتاق جونیجو صرف 5230ووٹ حاصل کر پائے۔PB-20پشین میں ضمنی الیکشن ہوا، تو جے یو آئی (ف)کے امیدوار، آغاعزیز اللہ بلوچستان اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔
A-221تھرپاکر کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار، عامر علی شاہ جیلانی تحریکِ انصاف کے امیدوار، نظام الدّین رحیموں کو شکست دے کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔حکومتی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا NA-249کراچی کی نشست پر کرنا پڑا۔2018ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا مسلم لیگ نواز کے صدر، میاں شہباز شریف کو شکست دے کر یہاں سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، مگر ضمنی الیکشن کے دَوران نہ صرف یہاں سے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر مندوخیل کام یاب ہوئے، بلکہ پی ٹی آئی کے امیدوار، امجد آفریدی پانچویں نمبر پر چلے گئے۔لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-133میں ضمنی الیکشن ہوا، تو مسلم لیگ (نون) نے وفات پا جانے والے ایم این اے، پرویز ملک کی اہلیہ، شائشہ پرویز ملک کو ٹکٹ دیا۔
پی ٹی آئی نے یہاں میدان ہی خالی چھوڑ دیا اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں مل کر بھی نون لیگ سے یہ نشست نہ چھین سکیں۔2021ء کا آخری ضمنی الیکشن خانیوال میں صوبائی اسمبلی کے حلقے PP-206میں ہوا ۔2018ء کے عام انتخابات میں یہاں سے نشاط خان ڈاہا مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر کام یاب ہوئے تھے، جب کہ رانا محمّد سلیم پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر دوسرے نمبر پر رہے۔
بعد ازاں، نشاط خان ڈاہا باغی گروپ میں شامل ہوگئے۔اُن کی وفات کے بعد اُن کی اہلیہ، نورین نشاط ڈاہا نے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر حصّہ لیا، جب کہ رانا محمّد سلیم کو مسلم لیگ(نون)نے ٹکٹ دیا۔کسی بھی رُکن اسمبلی کی وفات پر ہم دردی کا ووٹ ملتا ہے اور پھر حکومتی وسائل بھی ہوا کا رُخ متعیّن کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کی امیدوار، نورین نشاط ڈاہا ہار گئیں اور شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والے رانا محمّد سلیم کام یاب رہے۔ضمنی انتخابات کے اِس نئے رجحان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منہگائی سے تنگ ووٹرز آئندہ عام انتخابات میں حکم ران جماعت کے ساتھ کیا سلوک کر سکتے ہیں۔
2021ء کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی 3مارچ کو پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا، یعنی سینیٹ کی 48نشستوں پر ہونے والے انتخابات تھے۔ حکم ران جماعت چاہتی تھی کہ سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ یا شو آف ہینڈز کے ذریعے ہوں اور اِس مقصد کے لیے ایوان میں قانون سازی کی بھی کوشش کی گئی، مگر حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔الیکشن کمیشن نے رائے دی کہ آئین کے مطابق سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے نہیں ہو سکتا، تو حکومت نے آرڈیننس جاری کردیا۔
تاہم، مخالفین معاملہ عدالتِ عظمیٰ لے گئے، جہاں طویل عدالتی جنگ کے بعد حکم ران جماعت کو ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔قبل ازیں، اِس بات پر بھی بہت چہ مگوئیاں ہوئیں کہ اہلیت کا یہ کیسا معیار ہے کہ پرویز رشید کو تو نااہل قرار دے دیا گیا، مگر فیصل واوڈا اہل ٹھہرے۔بہر حال، سینیٹ انتخابات کے دَوران سب سے بڑا مقابلہ اسلام آباد سے جنرل نشست پر سابق وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی اور تحریکِ انصاف حکومت کے وزیرِ خزانہ، عبدالحفیظ شیخ کے درمیان تھا۔مفاہمت کے بے تاج بادشاہ، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی کو نام زد کرکے نئی سیاسی بساط بِچھا چُکے تھے، چناں چہ عبدالحفیظ شیخ 164ووٹ لے کر ہار گئے اور یوسف رضا گیلانی 167ووٹس کے ساتھ سینیٹر منتخب ہوگئے۔
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ اسلام آباد ہی سے خواتین کی نشست پر اپوزیشن کی امیدوار، فرزانہ کوثر صرف161ووٹ لے سکیں، جب کہ پی ٹی آئی کی امیدوار، فوزیہ ارشد 174ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوگئیں۔یوسف رضا گیلانی کی جیت نے جہاں حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجائیں،وہیں اپوزیشن بھی اِس جیت کے بعد اونچی ہوائوں میں اُڑنے لگی۔وزیرِ اعظم، عمران خان نے اِس موقعے پر اچھی چال چلی اور مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کی بجائے فوری طور پر ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا۔قومی اسمبلی کے 178ارکان نے وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا، تو بے یقینی کے بادل چھٹ گئے اور سیاسی مطلع، جو سینیٹ انتخابات کے بعد خاصا ابرآلود تھا، صاف ہوگیا۔
یوسف رضا گیلانی کی جیت سے اپوزیشن جماعتوں کا اعتماد بحال ہوا، تو پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے 26مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔بلاول بھٹّو زرداری نے پنجاب میں تحریک عدمِ اعتماد کا عندیہ دیا اور یوں محسوس ہونے لگا، جیسے اب اُلٹی گنتی شروع ہو چُکی ہے اور حکومت کے دن تھوڑے ہیں۔ مگر جلد ہی ان سب خوش فہمیوں کا پردہ چاک ہوگیا۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے اپوزیشن جماعتیں یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار نام زد کرچُکی تھیں، جب کہ صادق سنجرانی ایک بار پھر حکم ران اتحاد کے امیدوار تھے۔
اپوزیشن کو ایوانِ بالا میں واضح سبقت حاصل تھی اور صادق سنجرانی کا کام یاب ہونا بہت مشکل تھا۔12مارچ2021ء کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا، تو اپوزیشن کے امیدوار، یوسف رضا گیلانی کے 7ووٹ مسترد کرکے صادق سنجرانی کو کام یاب قرار دے دیا گیا۔چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے100میں سے 98 ارکان نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔صادق سنجرانی کو 48،جب کہ یوسف رضا گیلانی کو 49ووٹ ملے۔ مگر یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ اِس لیے مسترد کرد یے گئے کہ مُہر دائرے کی بجائے امیدوار کے نام پر لگائی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اِس معاملے کو عدالت لے جانے کا اعلان کیا، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی پٹیشن مسترد کردی۔
اپوزیشن جماعتوں کا، جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کر رہی تھیں، سربراہی اجلاس ہوا، تو اسمبلیوں سے استعفے دینے کے معاملے پر اتحاد میں پُھوٹ پڑ گئی۔پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ، مولانا فضل الرحمٰن اور سابق وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف چاہتے تھے کہ 26مارچ کو لانگ مارچ کرنے سے پہلے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوا جائے، جب کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر، آصف زرداری کا مؤقف تھا کہ پہلے تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے اِن ہائوس تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔اِس اجلاس میں بعض تلخ جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔
آصف زرداری نے کہا کہ’’ استعفے دے کر تحریک چلانی ہے، تو میاں نوازشریف پاکستان واپس آئیں۔‘‘اجلاس اِس معاملے پر کوئی فیصلہ نہ کرسکا، تو پی ڈی ایم کے سربراہ، مولانا فضل الرحمٰن ناراض ہوکر چلے گئے اور لانگ مارچ ملتوی کردیا گیا۔بعد ازاں، یوسف رضا گیلانی اپوزیشن جماعتوں کے طے کردہ گئے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان سے ووٹ لے کر سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف بنے، تو اپوزیشن مزید تقسیم ہوگئی۔پی ڈی ایم کے جنرل سیکریٹری، شاہد خاقان عباسی نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت کو شوکاز نوٹس جاری کیا، تو معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے۔اے این پی نے پی ڈی ایم سے الگ ہونے کا اعلان کردیا، جب کہ پیپلز پارٹی بھی عملاً اپوزیشن اتحاد سے لاتعلق ہوگئی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت ماضی کے ہر بحران سے اِس لیے باآسانی بچ نکلنے میں کام یاب ہوئی کہ وہ’’ایک صفحے‘‘پر ہونے کا فیض پاتی رہی۔ اکتوبر کے مہینے میں یہ تاثر زائل ہوتا دِکھائی دیا اور معلوم ہوا کہ وہ صفحہ پھٹ چُکا ہے۔ہوا یوں کہ افواجِ پاکستان کے محکمہ تعلقاتِ عامّہ نے6اکتوبر کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے بتایا کہ ڈی جی، آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل، فیض حمید کو کور کمانڈر، پشاور تعیّنات کردیا گیا ہے، جب کہ اُن کی جگہ کور کمانڈر، کراچی، لیفٹیننٹ جنرل، ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرّر کیا گیا ہے۔
پہلے افواہیں زیرِ گردش رہیں اور پھر حکومت نے تصدیق کردی کہ اِس حوالے سے قانونی طریقۂ کار اختیار نہیں کیا گیا۔آخر کار آئی ایس پی آر کے اعلان کی پاس داری تو کی گئی، مگر اس تبدیلی کو کچھ عرصے کے لیے مؤخر کر دیا گیا اور پھر ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے بتایا گیا کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی 19نومبر کو ذمّے داریاں سنبھالیں گے۔ 19نومبر2021ء کو آب پارہ میں چینج آف کمانڈ کے بعد ایک بار پھر تبدیلی کی افواہوں نے زور پکڑا۔چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں ہونے لگیں کہ اب جب کہ ’’ایک صفحے‘‘پر ہونے کی سہولت دست یاب نہیں، تو یہ حکومت نہیں چل پائے گی۔
دسمبر کے آغاز میں اِن ہاؤس تبدیلی کی خبریں زبان زدِ عام رہیں، لیکن جب چینج آف کمانڈ سے چند روز قبل 17نومبر کو حکومت نے مَن مانی کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33بل منظور کروا لیے، جن میں الیکٹرانک ووٹنگ اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بل بھی شامل تھے،تو کنفیوژن کا پیدا ہونا لازم تھا۔ دسمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے احتجاجی حکمتِ عملی کا اعلان کرنا تھا، مگر جب مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ 23مارچ 2022ء کو اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا، تو یاد آیا کہ گزشتہ برس بھی 26مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن پھر اُسے ملتوی کردیا گیا تھا۔
اِس اعلان سے یوں محسوس ہوا، جیسے اپوزیشن دائرے میں گھومتے ہوئے وہیں آکھڑی ہوئی ہے، جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔شاید، مولانا فضل الرحمٰن کو کسی نے بتایا ہو کہ مارچ صرف مارچ ہی کے مہینے میں ہوسکتا ہے۔نیز، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انقلاب کو سردی لگ گئی ہو، لیکن اصل بات یہ ہے کہ کپتان کا’’کِلا‘‘مضبوط ہے۔بھلے آپ اپوزیشن الیون کے کپتان کو کوسنے دیتے رہیں، بائولرز کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے رہیں، فیلڈرز کو کیچ چھوڑنے پر بُرا بھلا کہیں یا امپائر کی طرف انگلی اُٹھائیں، مگر یہ تو ماننا پڑے گا کہ کپتان اور اُن کی ٹیم نے بھلے رنز اسکور نہ کیے ہوں، لیکن اُنہیں کریز پر جم کر کھیلنے اور اننگز پوری کرنے کا فن ضرور آتا ہے۔