ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے چندماہ بعدمحترمہ بے نظیر جن کو اس وقت آنسہ بے نظیر بھٹو کہا جاتا تھالاہور کے دور ے پر آئیں، مجھے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر شیخ رفیق احمد کے اسسٹنٹ شیخ تاج دین نے کہا،(شیخ رفیق ان دنوں ساہیوال جیل میں قید تھے)بے نظیر بھٹو لاہور آرہی ہیںفاروق لغاری کے گھر کارکنان سے ملاقات اور خطاب کریں گی۔میں اگلے روز تاج دین کے ہمراہ فاروق لغاری کی کوٹھی پر پہنچا۔ کئی کنال پر محیط ایک سردار کی رہائش گاہ اپنے جاہ و جلال کا اظہارکر رہی تھی، مگر کم ہی لوگوں کو معلوم تھاکہ اندر آکسفورڈسے پڑھی ہوئی کمزور سی لڑکی موجود ہے جس کے ارادے چٹانوں سے بھی مضبوط ہیں۔بے نظیر بھٹو نے اسی گھر کے لان میں لوہے کی کرسی پر کھڑے ہو کر کارکنوں سے خطاب کیا۔وہاں موجود افراد کی تعداد تقریباًسوکے لگ بھگ تھی، جن میں سے کئی ایک کو کوڑے پڑ چکے تھے اور باقی شاہی قلعے کے اذیت خانوں میں جانے کے لئے تیار تھے۔ بے نظیر بھٹو نے خطاب میں حوصلہ اور جدوجہدکی باتیں کیں۔وہ پُر عزم تھیں، کہ ہم عوام کے حقوق واپس لے کر رہیں گے۔
بھٹو کے عدالتی قتل نے معاشرے میں بھٹو دوست اوربھٹو دشمن کی تفریق کر دی تھی۔ مجھے بھٹوکے قتل کے بعد ستمبر 79ء میں ناصر باغ میں ہونے والا پیپلز پارٹی کا جلسہ بھی یاد ہے جس میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کو دیکھنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میںلوگ شریک ہوئے۔ جنرل ضیاء اور اسکے ساتھی اس جلسے سے گھبرا کر انتخابات کے وعدے سے مکر گئے۔اُنھیں یقین ہو گیا کہ PPPکو ختم کرنے کا خواب نا مکمل رہے گا۔ انہوںنے عام انتخابات سے تو فرار حاصل کر لیا مگر اسی سال 1979ء میں اگلا تجربہ بلدیاتی انتخابات کا کیا۔ یہ انتخابات ایسے ہوئے کہ پیپلز پارٹی کے سوا کوئی کہیں نظر ہی نہ آیا۔لاہور میں 100سیٹوں پر الیکشن ہوا جن میں سے 85سیٹوں پر PPPکے عوام دوست اُمیدوار جیت گئے۔جیتنے والوں کی اکثریت جیلوں میں تھی۔ محترمہ شہید کے دو واقعات آپ کے گوش گزار کرتا ہوںکہ ان کا سیاسی وژن نیشنل اور انٹر نیشنل اثروسوخ اس قدر وسیع تھااور کارکنان کی اہمیت ان کے نزدیک کس قدر تھی۔1992ء میں PPP مسلسل بے نظیر بھٹو کی قیادت میں جلسے جلوس اور لانگ مارچ کرتی رہی، اس کے نتیجے میں نواز شریف حکومت رخصت ہو گئی،ساتھ ہی بیوروکریسی کے ان داتا صدر اسحاق خان بھی ان کا نشانہ بن گئے اور دونوں کو ایک ساتھ ہی حکومت سے مستعفی ہونا پڑا۔ پہلے لانگ مارچ کا آغاز 18نومبر1992ء کو لاہور سے ہوا تھا جبکہ دوسرالانگ مارچ جولائی1993میں ہوا۔ جب مختلف شہروں سے جلوس اسلام آبا د پہنچنے تھے۔اس سلسلے میں تیاری کیلئے گلزار ہاؤس میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں پارٹی کے 25 کے قریب رہنما شریک تھے۔جن کا تعلق سندھ، سرحد آج کےKPKبلوچستان اور پنجاب سے تھا۔جبکہ باقی رہنماؤں کو اپنے اپنے شہروں سے جلوسوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا تھا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ جی ٹی روڈ اور مختلف ہائی ویز پر دیواریں کھڑی کر کے راستہ بند کر دیا گیا۔ گلزار ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں ہونیوالے اجلاس میںایک بڑی ٹیبل بھی رکھی گئی تھی جس پر سبز کپڑے پر اسلام آباد آنیوالے راستوں کا نقشہ بنایا گیا تھااور مختلف لیڈر بتا رہے تھے کہ اگر یہ روڈ بند ہوتی ہے تو کیسے اور کس راستے سے اسلام آباد پہنچنا ہے۔میٹنگ کے اختتام پر تجسس ہوا کہ یہ کون تھا جس کو اجلاس میں شریک کوئی نہیں جا نتا۔ہم گلزار ہاؤس سے نکل کر واپس گھر آگئے،صبح روانگی کیلئے سامان تیار تھا، مگر رات ڈھائی بجے گلزار ہاؤس سے بی بی شہید کا فون آگیاکہ اخبارات کواطلاع کروادیں کہ صبح کا لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا ہے۔میں رات تین بجے بھاگم بھاگ اخبارات کو اطلاع دینے لگا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کارکنان کے بارے میں کس قدر توجہ رکھتی تھیں، آپ کی خدمت میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ 1993ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد اسلام آباد میں سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوئی، وزیراعظم کو وزارت اطلاعات اور وفاقی ایجنسیوں کی جانب سے چند صفحات پر مشتمل روزانہ کی بنیاد پر اخبارات کی اہم خبروں پر بریف کیا جاتاتھا۔ جسکی ایک کاپی سیکرٹری جنرل کو بھی دی جاتی تھی،میٹنگ کا آغاز ہو گیا۔گفتگو کا آغاز ہوا محترمہ ساتھ ساتھ بریف کے کلپ اور ایجنسیوں کی رپورٹس دیکھتی رہیں۔وہ یکدم چونکیںاور اجلاس کی کارروائی روک دی اور شیخ رفیق احمد سے کہا کہ آج کا اجلاس ملتوی کیا جا تا ہے، اور آپ فوری لاہور واپس جا کر پتہ کریںکہ ہراسائیں گٹے والے نے پارٹی کیوں چھوڑی اوراسے ہر صورت واپس لائیں۔
شیخ رفیق احمد کی وجہ سے ہراسائیں کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا کچھ دیر بعد اسپیکر پر PPP کے ترانوں کی آواز آئی سب کو پتا چل گیا کہ ہراسائیں آرہا ہے ہم نے اُس کا پرجوش استقبال کیا۔ہراسائیں نے کہا کہ میں نے تو وصیت کی ہے کہ مر جاؤں تو PPP کے جھنڈے میں دفن کیا جائے۔اسلام آباد میں PM ہاؤس کو سب ٹھیک ہونے کی خبر دیدی گئی۔ مجھے یقین ہے ایک افواہ نما خبر پرجس طرح بے نظیر بھٹو نے تشویش ظاہر کی، اُمید ہے بلاول بھٹواور آصف ذرداری بھی کارکنوں کے بارے میں بھی یہی رویہ اپنائیں گے۔