کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ میں سیاسی طرز عمل اختیار کرنے پر ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی معافی مانگ کر نااہل ہونے سے بچ گئے۔
سپریم کورٹ نے گٹر باغیچہ کی رفاہی اراضی پر سیاسی رویہ اپنانےپر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صدیقی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا گیٹ آئوٹ،یہاں سیاست نہ کریں،یہ زمینیں آپکی ذاتی ملکیت نہیں، ساری زمینیں واپس کرنا ہونگی، ہم نہیں لینگے تو کوئی اور آکر لے گا لیکن بہر صورت آپ زمینیں واپس کرینگے، آپکا رویہ سیاسی ہے آپ یہاں سیاست کر رہے ہیں۔
عام شہریوں کے ساتھ آپ کا طرز عمل کیا ہوتا ہوگا ، ذہنی رحجان کی نشاندہی ہو رہی ہے کہ چھوٹے سے آفس میں بیٹھ کر ایک افسر وائس رائے بن جاتا ہے یہی ہمارا المیہ ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کمرہ عدالت سے فوری باہر جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مسٹر چپ کریں اور نکل جائیں یہاں سے۔
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ کو حکم دیا کہ ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوتا ہے مرتضیٰ وہاب اس عہدے کیئے اہل نہیں رہے لہٰذا کسی غیر جانبدار اور اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جائے تاہم مرتضیٰ وہاب کے بار بار معافی مانگنے پر عدالت عظمیٰ نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا حکم واپس لے لیا۔
تفصیلات کے مطابق پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے گٹر باغیچہ کیس پر سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت سخت الفاظ استعمال کرنے پر عدالت نے مرتضیٰ وہاب پر برہمی کا اظہار کیا بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ایڈمنسٹریٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست کی زمینیں ہیں آپ کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ آپکے پاس امانتیں ہیں ریاست یہ سب زمینیں واپس لے گی اور آپ نے ہر حال میں ساری زمینیں واپس کرنا ہونگی، ہم نہیں لیں گے تو کوئی اور آکر لے گا لیکن بہر صورت یہ زمینیں آپ واپس کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیسے سوچ لیا گیا کہ رفاہی زمین پر تعمیرات ہوسکتی ہیں؟ تاقیامت بھی رفاہی زمین کی حیثیت رفاہی رہیں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کے ایم سی کی تمام سوسائٹیز ختم کر دی جائیں، کے ایم سی والوں نےسب رفاہی زمینیں مرضی سے بیچ کر خوب مال بنایا۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس میں کہا کہ ایک چھوٹے سے آفس میں بیٹھاافسر یہاں وائس رائے بن جاتا ہے یہی ہمارا المیہ ہے۔ چیف جسٹس نے مرتضیٰ وہاب کو کہا کہ آپ کو تمام پارکس اصل حالت میں بحال کرنا ہونگے اور انکی بحالی کیلئے آپکو کسی عدالتی حکم کی بھی ضرورت نہیں یہ یاد رکھیں کہ ریاست کی زمینیں آپکے پاس امانتیں ہیں۔
اس پر مرتضیٰ وہاب کا لہجہ تلخ ہوگیا اور انہوں نے عدالت میں کہا کہ ہم کیا چلے جائیں حکومت چھوڑدیں ؟ ہر بار اوپن کورٹ میں حکومت سندھ کے خلاف بڑی بڑی آبزرویشن پاس کردی جاتی ہیں۔
مرتضی وہاب کے جملے سن کر چیف جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ مسٹر چپ کریں کیا بات کررہے ہیں سیاست نہیں کریں یہاں، آپ یہاں سیاست کر رہے ہیں؟
جائیں یہاں سے نکل جائیں، ابھی آپ کو فارغ کردیتے ہیں چیف جسٹس نے غیر جانبدارانہ رویہ اپنانے پر کہاکہ آپ ایڈمنسٹریٹر ہیں یا سیاسی رہنما؟
ایڈمنسٹریٹر کو شہریوں کی خدمت کیلئے رکھا جاتا ہے تاکہ غیر جانبداری سے کام کرے آپ کو بنیادی معلومات تک نہیں ہیں کہ ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سیاست کیلئے نہیں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ایڈمنسٹریٹر اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ایڈمنسٹریٹر کا رویہ مکمل طور پر سیاسی ہے شہریوں کی خدمت کا نہیں لہٰذا ہم وزیراعلیٰ سندھ کو غیر جانبدار اور اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر لگانے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر کراچی کیلئے اہل نہیں ۔
عدالت کی سرزنش پر مرتضیٰ وہاب نے خود بھی محسوس کی کہ ان سے غلطی ہوگئی اور سخت الفاظ استعمال کرنے پر عدالت سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں اپنے رویئے پر معذرت خواہ ہوں لیکن اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کو عہدے سے ہٹا چکے اب آپ ایڈمنسٹریٹر نہیں رہے، آپ ریاست نہیں ہو حکومت ہو، دونوں کا فرق پتا ہونا چاہیے۔
آپ کا عہدے پر رہنا مفادات کا تصادم ہوگا ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی فیصلہ واپس لیا جائے جبکہ مرتضیٰ وہاب نے بھی دوبارہ معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ معذرت کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر آپ ہمارے سامنے سیاسی ایجنڈا لے کر آتے ہیں تو عام شہریوں کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے آپ کا یہ رویہ ذہنی رحجان کی نشاندہی کرتا ہے۔
عدالت نے کارروائی میں مختصر وقفہ کر کے مرتضیٰ وہاب کی معافی قبول کرلی اور انہیں عہدے سے ہٹانے کا حکم واپس لے لیا اور آئندہ کے لیئے خبردار بھی کیا کہ ایسا طریقہ کار ناقابل برداشت ہوگا، چیف جسٹس نے مرتضیٰ وہاب کو ہدایت کی کہ اپنا آفس غیر جانبداری سے چلائیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ میں نے عدالت سے معافی مانگی ہے لیکن اس سے پہلے بڑے احترام کے ساتھ عدالت میں اپنی بات کر رہا تھا، کسی کے خلاف فیصلہ کرنے سے پہلے سن لینا چاہیے، عدالتوں کیلئے میرا لاکھ احترام ہے یہ عدالت میری اپنی عدالت ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وقفے کے بعد فیصلہ ہوگا دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، عدالت کا جو فیصلہ ہوگا مجھے قبول ہے، اگر میرا اعزاز مجھے ملا تو میں کام کرتا رہوں گا۔