• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

براہِ کرم درج ذیل سوالات کے جوابات شرعی نقطۂ نظر سے عنایت فرمائیں:

سوال: عینِ مسجد کی تعمیر کا خاص پیسہ ، امام ، مؤذن ، خادم کی رہائش ، وضوخانہ ، لیٹرین ، امام صاحب کے لیے اسٹڈی روم (جبکہ مسجد میں ایک بڑی لائبریری موجود ہو) اور مسجد کی دیگر جگہیں اور اس کے مدرسے میں لگانا کیسا ہے؟ (انتظامیہ مسجد، ناظم آباد کراچی )

جواب: جو رقم خاص مسجد کی تعمیر کے عنوان سے جمع کی گئی ہو ، اسے اسی تعمیر میں لگانا لازم ہے ۔علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’ فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ وقف کرنے والوں کے مقصد(ومصرف) کی رعایت کرنا واجب ہے‘‘۔ (حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد 4،ص:445)

ہاں !اگر تعمیری کام کے بعد رقم بچ جائے اور آئندہ تعمیر کے لیے ضرورت باقی نہ رہے، تو چندہ دہندگان کی اجازت سے اُسے مسجد کے دیگر مصالح و ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں ۔ علامہ ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ’ اگر کسی شخص نے (اپنا کھیت) مسجد کے مصالح اور انتظامات کے لیے وقف کیا، تو اس کے غلے کو امام ، مؤذّن اور مسجد کے منتظمین کو دینا جائز ہے‘‘۔(البحر الرائق ،جلد 5،ص:228)

اگر عطیات دینے والوں نے وہ رقم اصلِ مسجد کی تعمیر کے لیے مختص کی تو یہ رقم وقف ہوگئی ،اب اس رقم کو اصلِ مسجد کے سواکسی دوسرے مقام پر صرف کرنا جائز نہیں ہے، امام احمد رضا قادری ؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ وقف جس غرض کے لیے ہے ،اُس کی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل ہو، دوسری غرض میں صَرف کرنی حرام ہے۔ وقفِ مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی درکنار ،دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی، نہ ایک مدرسہ کی آمدنی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں ۔

درمختار میں ہے:ترجمہ:’’جب واقف ایک ہو اور جہتِ وقف بھی ایک ہو اور آمدن کی تقسیم بعض موقوف علیہ حضرات پر کم پڑجائے توحاکم کو اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے ،کیونکہ یہ دونوں وقف ایک جیسے ہیں اور اگر واقف یا جِہتِ وقف دونوں کی مختلف ہو، مثلاً: دو حضرات نے علیحدہ علیحدہ مسجد بنائی یا ایک نے مسجد اور دوسرے نے مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لیے علیحدہ وقف مقررکیے، تو پھر ایک کی آمدن سے دوسرے کے مصارف کے لیے خرچ کرنا جائز نہیں‘‘۔چندے کا جو روپیہ کام ختم ہوکر بچے ،لازم ہے کہ چندہ دینے والوں کو حصۂ رسد واپس دیاجائے یا وہ جس کام کے لیے اب اجازت دیں، اس میں صرف ہو۔

ان کی اجازت کے بغیرصرف کرنا حرا م ہے،ہاں! جب ان کا پتانہ چل سکے تواب یہ چاہیے کہ جس طرح کے کام کے لیے چندہ لیاتھا ،اسی طرح کے دوسرے کام میں اٹھائیں، مثلاً تعمیرِ مسجد کا چندہ تھا ،مسجد تعمیر ہوچکی توباقی بھی کسی مسجد کی تعمیر میں اٹھائیں ۔ غیرکام مثلاً تعمیرِ مدرسہ میں صرف نہ کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ پائیں تووہ باقی روپیہ فقیروں کو تقسیم کردیں ، درمختار میں ہے: کفن کے چندے سے کچھ بچ جائے تو یہ چندہ دینے والا معلوم ہو تو اسے لوٹا دیا جائے، ورنہ اس سے ایسے ہی فقیر کو کفن پہنا دیا جائے ، یہ بھی نہ ہوسکے ،تو کسی فقیر کو صدقہ کردیا جائے ،اسی طرح فتاویٰ قاضی خان وعالمگیری وغیرہ میں ہے ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد16، ص:206، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

عموماًمسجد کے عطیات کا ایک بڑا حصہ صدقاتِ نافلہ سے ہوتا ہے ، جبکہ بعض مساجد میں وقف سے حاصل ہونے والی آمدنی جیسے دکانوں یا مکانات کا کرایہ وغیرہ بھی اس میں شامل ہوتی ہے ۔علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں:’’ عموماً یہ چندے صدقۂ نافلہ ہوتے ہیں ،انہیں وقف نہیں کیاجاسکتا کہ وقف کے لیے یہ ضرور ہے کہ اصل حبس کرکے اس کے منافع کام میں صرف کیے جائیں،جس کے لیے وقف ہو،نہ یہ کہ خود اصل ہی کو خرچ کردیاجائے ،یہ چندے جس خاص غرض کے لیے کیے گئے ہیں ،اس کے غیر میں صرف نہیں کیے جاسکتے ۔ 

اگر وہ غرض پوری ہوچکی ہوتو جس نے دیے ہیں، اسے واپس کیے جائیں یا اس کی اجازت سے دوسرے کام میں خرچ کریں، بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے ‘‘۔ (فتاویٰ امجدیہ ،جلدسوم،ص:39)آج کل مساجد میں مصارفِ جاریہ کے لیے (جیسے ملازمین کے مشاہرہ جات ، گیس ،بجلی ،پانی اور دیگر یوٹیلیٹی بلز) کے لیے چندے وصول کیے جاتے ہیں ، ان میں مساجد کی ضروری تعمیر ومرمت کے کام بھی ہوتے ہیں ، بعض مُقدّس ایام پر چراغاں وغیرہ بھی کیاجاتا ہے اور یہ مصارف چندہ دینے والوں کو معلوم ہوتے ہیں اور ان کے سامنے کیے جارہے ہوتے ہیں ، اس لیے ان کے تصرُّف میں چندہ دینے والوں کی عمومی اجازت عرفِ عام ہے ، اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا ،البتہ وہ عطیات جو مخصوص مصارف( تعمیر مسجد ، سامانِ تعمیر ، قالینیں وغیرہ) کے لیے دیے گئے ہوں ، ان کا اُنہی مصارف پر خرچ کرنا لازم ہے۔

سوال: مسجد کے جمعہ وغیرہ کے چندے سے اسی مسجد کے مدرسے میں کچھ خرچ کرنا کیساہے ؟

جواب: یہ عطیات صدقاتِ نافلہ ہوتے ہیں، وصول کرتے وقت صرف مصارفِ مسجد کا نام لیا تھا تو دوسرے مصرف یہاں تک کہ مدرسہ میں بھی خرچ نہیں کیے جاسکتے ، البتہ اگر مدرسے کو بھی شامل کرلیا تھا تو جائز ہے۔ وقف کے لازم ہونے سے اس کی شرائط بھی لازم ہوتی ہیں ۔ (…جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین