ہر ذی ہوش مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی ، اطاعت اور عبادت کے بعد سب سے زیادہ تلقین یہی کی ہے کہ والدین سے حسن سلوک کیا جائے، کیوں کہ والدین وہ ہستیاں ہیں جن کی محبت و شفقت کا قرض کبھی اُتارا ہی نہیں جاسکتا ایک بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے اسے اپنی ذات، اپنی شناخت، اپنی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لئے والدین کی ضرورت ہوتی ہے ۔
والدین کے دل میں قدرتی طور پر اولاد کی بےتحاشا اور غیر مشروط محبت موجود ہوتی ہے اور یہی محبت انہیں اتنی ہمت اور طاقت فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے اپنا آرام ، چین ، سکون ، مشاغل سب کچھ چھوڑ کر انہیں اپنے وسائل کے مطابق بہترین مستقبل دینے کی جدو جہد میں اپنی طاقت اور جوانی لگادیتے ہیں اور جب ننھی منی اولاد جوان ہوکر ایک طاقتور ، مضبوط اور کار آمد انسان میں تبدیل ہوتی ہے تب تک یہ والدین بوڑھے اور کمزور ہوجاتے ہیں۔
دنیا کے ہر مذہب میں والدین کی عزت کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن چونکہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس الہامی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود ہے،جس میں بار بار والدین سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ والدین کو احادیث میں ’’جنت کے دروازے ‘‘ کہا گیا ہے ۔ خوش قسمت ہوتی ہیں وہ اولادیں جو ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں ۔ سورہ بنی اسرائیل کی وہ آیت جو اس مضمون کا عنوان ہے نہایت بامعنی ہے اور اس پر عمل کرنا یقیناً اتنا آسان نہیں ہے ۔ میں بات کررہی ہوں اس آیت کی جس میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ ( مفہوم ) اگر والدین میں سے دونوں یا کوئی ایک بوڑھے ہوجائیں تو ان کے سامنے جھک کر رہو اور ’’ اف ‘‘ تک نہ کہو۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اف کا ترجمہ ’’ ہوں ‘‘ کیا ہے۔ یعنی والدین کے سامنے ’’ ہوں ‘‘ کرنے تک کو منع کیا گیا ہے، خصوصاً بڑھاپے کا ذکر کیا گیا ہے، کیوںکہ جوانی میں تو والدین کے سامنے بچے اتنی ہمت نہیں کرتے کہ ان سے بدتمیزی کرسکیں لیکن جیسے جیسے والدین کمزور و ضعیف اور اولاد جوان و طاقتور ہوتی ہے توکبھی کبھی منہ زور بھی ہوجاتی ہے اب انہیں والدین کی ضرورت نہیں رہتی اب وہ وقت آجاتا ہے، جب والدین ان کے دست نگر ہوتے ہیں۔ بڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے اور بڑھاپے میں انسان مختلف عوارض کا شکار ہو کر چڑچڑا اور کمزور ہوجاتا ہے ، یادداشت متاثر ہوتی ہے ، غصہ جلدی آتا ہے ،ایک متحرک زندگی گذارنے کے بعد اپنے آپ کو بے بس و لاچار سمجھنے لگتا ہے۔
اپنی طاقت ، جوانی اور خوبصورتی کھونے والے کے محسوسات سمجھنے کی عقل عموماً اولاد میں نہیں ہوتی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بوڑھے والدین کا ذکر کرکے ان کے سامنے جھک کر رہنے اور زبان سے ’’ اف ‘‘ تک نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ’’ جنت کے دروازے ‘‘ والدین کے حیات ہونے کی صورت میں گھر میں موجود ہوتے ہیں لیکن اولاد جنت کی تمنا لئے ادھر ادھر پھر رہی ہوتی ہے کہ ایسا کیا کروں کہ جنت مل جائے ؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنت کا حصول اتنا آسان نہیں ہے اس کے لئے بوڑھے والدین کی تلخ باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کرنا پڑتا ہے ۔
میرا مشاہدہ ہے کہ کچھ گھرانوں میں بوڑھے والدین کے کھانے پینے اور آرام کا تو خیال رکھ لیا جاتا ہے لیکن ان کے شوق پورے نہیں کیےجاتے ۔ اکثر اولاد یہ سمجھتی ہے کہ بوڑھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ والدین پوری دنیا چھوڑ کر ایک کمرے میں بند ہوجائیں اور اللہ اللہ کرتے رہیں، جس طرح ہر انسان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اسی طرح بوڑھے لوگوں کا بھی الگ الگ مزاج ہوتا ہے کچھ بوڑھے لوگ گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں اور کچھ آنے جانے اور ملنے ملانے کے شوقین ہوتے ہیں ،کیوں کہ بوڑھے افراد کو کہیں لے جانا مشکل ہوتا ہے، اس لئے اولاد چاہتی ہے کہ والدین گھر میں رہیں، جس کی وجہ سے ’’ جنت کے یہ دروازے ‘‘ پژمردہ اور اداس رہنے لگتے ہیں بوڑھا ہونے کے باوجود ان کا بھی کچھ کرنےکا دل چاہتا ہے ،کچھ شوق ہوتے ہیں ۔
کہیں گھومنے پھرنے کا بھی دل چاہتا ہے، رشتے داروں سے ملاقات کا بھی دل چاہتا ہے ، کبھی کسی کی شادی کی تقریب میں شرکت بھی کرنی ہوتی ہے تو اس وقت اولاد کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اپنے بوڑھے والدین کو کہیں نہ کہیں ضرور لے کر جائیں انہیں ان کے رشتے داروں اور دوستوں سے ملواتے رہیں اس سے ان کے موڈ پر اچھا اثر پڑتا ہے اور جب موڈ خوش گوار ہوتا ہے تو بیماری اور اس کی تکلیف بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ اولاد کے لئے والدین کی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت مشکل کام ہے کبھی کبھی تو ننھے بچوں کی طرح بہلا پھسلا کر دوا کھلانا پڑتی ہے لیکن سوچ وہی ہونی چاہئے کہ انہوں نے نہ جانے کیا کیا جتن کرکے ہمیں اس قابل کیا ہوگا ۔
اگر آپ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جو جنت کے دونوں دروازے یا کوئی ایک دروازہ رکھتے ہیں تو اس وقت کی قدر کیجئے، کیوں کہ بعد میں صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔ جب ان کا دل چاہے کسی سے ملاقات کے لئے لے جائیں۔ اگر ایک ڈاکٹر سے مطمئن نہ ہوں تو دوسرے ڈاکٹر کو دکھادیں۔ کبھی کبھی بدپرہیزی بھی کرنے دیں۔ اونچا سنتے ہوں تو اتنا ڈانٹ اور چیخ کر نہ بولیں کہ وہ بےچارے اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگیں۔ بینائی کم ہوجائےتو ان کی چھڑی بن جائیں۔بات سمجھنے میں انہیں مشکل پیش آنے لگے تو ننھے بچوں کی طرح آرام سے سمجھائیں۔
ان کی خوشی کے لئے کبھی کبھار ان سے وابستہ رشتوں کو اپنے گھر مدعو کرلیا کریں۔ان کی جوانی اور جدوجہد کے سیکڑوں بار سنے ہوئے قصے ان کی خوشی کے لئے ہر بار دلچسپی سے سن لیا کریں۔اگر کبھی غصہ کریں تو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیں۔ناراض ہوں تو محبت سے گلے لگالیں ۔اپنی بیماری اور تکلیف کی تفصیلات بتائیں تو یہ سوچ کر پوری توجہ سے سنیں کہ آپ سے کہہ کر انہیں کتنی دلی تسلی ہورہی ہوگی۔
جب وقت ملے ان کے دکھتے بدن کو اپنے قوی ہاتھوں سے دبا دیا کریں یقین کریں ان کے چہرے کا سکون آپ کو اپنے دل میں اترتا محسوس ہوگا۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب میں ریستوران، بازار، تفریحی مقامات پر کسی ایسی فیملی کو دیکھتی ہوں جو اپنے بزرگوں کو ساتھ لے کر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں چاہے وہ بزرگ وہیل چیئر پر ہی کیوں نہ ہو لیکن اس بزرگ کا چہرہ خوشی سے روشن ہوتا ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے جنت کے ان دروازوں کی قدر کی اور کررہے ہیں ۔