• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد یوسف

دروازہ بند تھا۔ کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ امی کہیں نہیں تھیں۔ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں گلے میں بستہ لٹکائے میں گلی میں کھڑا تھا۔ مئی کی دوپہر کی دھوپ میرے ماتھے کو بھگو رہی تھی۔ میں نے دائیں بائیں سنسان گلی کو دیکھا اور میری چیخ نکل گئی۔ امی۔ی۔ی۔ی۔ی ۔ ۔ ۔ جانے کتنی دیر کھڑا دروازے کو دیکھ کر روتا رہاکہ یکایک ایک جانب سے امی بھاگتی ہوئی آئیں اور مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ 

اس روز رات گئے تک وہ دادا، دادی اور ابو کو اپنی ا س لاپرواہی کابتاکر خود کو کوستی رہیں۔ بچہ اکیلا گلی میں روتا رہا ۔ میں ساتھ والی ہمسائی کو ختم کے چاول دینے گئی تھی، اس نے زبردستی باتوں میں لگا لیا ۔ قصور امی کا نہیں تھا، مگر قصور میرا بھی نہیں تھا ۔ اسکول سے واپسی پر کبھی گھر کے دروازے کی کنڈی لگی ہوئی نہ دیکھی تھی، اس سے پہلے اور نہ کبھی اس کے بعد۔

امی کے گھر ہونے کا تصور اس قدر پختہ تھا کہ اسکول، کالج، ملازمت، پھر بیرون ملک سے واپسی پر گھر داخل ہوتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا ۔ امی کہاں ہیں؟ اور جواب پر اندر کا بلکتا بچہ مطمئن ہو جاتا تھا۔ امی اندر ہے ، کچھ سمیٹ رہی ہے۔امی کچن میں ہے، کھانا بنا رہی ہے۔

امی چھت پر ہے، مرچوں کو دھوپ لگوا رہی ہے ۔ امی کا میکہ موجود تھا مگر وہ کبھی نہ گئیں۔ہم نے امی کو نہ کبھی بنتے سنورتے دیکھا اور نہ کھاتے پیتے۔ نہ جانے کب ہماری مائیں کھانا کھایا کرتی تھیں۔ برسوں اولاد کے منہ میں نوالہ ڈالنے کی لذت شائد ایسے ہی بھوک اڑا دیتی ہے۔ چھوٹے بھائی کو تیز بخار تھا۔ وہ بخار میں اٹھا اور صحن میں بنے باتھ روم چلا گیا۔ 

کمزوری شدید تھی کہ باتھ روم سے باہر آتے چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ اس کوبیہوش ہوتے دیکھ کر امی بھی گر گئیں۔ بھائی جلدی ہوش میں آ گیا اور ہم امی کو ہوش میں لانے لگے۔ امی امی ۔ ۔۔۔ دیکھیں کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہے ۔ امی نے آنکھیں کھولیں ۔ مجھے اپنے اوپر جھکے دیکھا ۔ مجھ سے بھائی کی خیریت کا جملہ سنا اور بے اختیار ہو کر مجھے سینے سے بھینچ لیا۔ 

بچپن میں اسکول سے واپسی والے واقعے کے بعد یہ دوسری بار تھا جب امی نے ایسے گلے لگایا، پھر کئی سال بعد، امی میرے ساتھ عمرے پر گئیں تھیں کہ ہجوم میں کھو گئیں۔ وہ آدھ گھنٹہ جب تک مجھے نظر نہ آئیں، قیامت تھی۔ کیسے کیسے وہم آنکھوں میں لہرا گئے اور اچانک ہجوم سے ایک چہرہ ابھرا ۔ ۔ ۔ امی۔ی۔ی۔ی ۔ ۔ ۔ میری چیخ نکلی اور امی نے بھاگ کر مجھے گلے سے لگا لیا ۔ کتنی دیر تک مجھے تسلی دیتی رہیں اور خود کو بھی ۔ کل رات، پھر وہی مئی کی تیز دھوپ میرے ماتھے پر تھی۔

میں نے سنسان گلی میں دائیں بائیں دیکھا اور بہت چیخا ۔ ۔ ۔ امی۔ی۔ی۔ی۔ی۔ ۔ ۔ ۔ امی۔ی۔ی۔ی۔ی۔ ۔ ۔ گلی سنسان ہی رہی ۔ دروازے کی کنڈی لگی ہی رہی، جانے والی جا چکی ہے۔ بچہ بلکتا رہا ۔ یادوں کی دھوپ چمکتی رہی۔ خواہش ہے کاش اللہ تعالیٰ جنت کے اس کونے کی جھلک دکھلا دے، جہاں سیمنٹ کے ٹھنڈے فرش پر امی، نانی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ بیٹھی کھکھلا کر ہنس رہی ہوں گی۔ ان کا چہرہ سرخ ہوگا خوشی کے ساتھ اور اس پل میں وہ پانچ بچوں کی فکر کرنے والی ماں نہیں بلکہ ایک نازک شہزادی ہوں گی۔

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لےدن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔