• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ یوسف

اس کائنات کا وہ تحفہ ہے جو خالق کائنات نے بے حساب ودیعت کیا ہے۔ یہ کسی ایک شکل میں نہیں ہوتا۔ ساری کائنات زمین کے ذروں سے لے کر کہکشاں کی راہ گذاروں تک نکھار کی تمثیل ہے۔ سراپا جامہ زیبی کی داستان ہے۔ اندازہ کریں وہ لوح و قلم کتنے دیدہ زیب اور لافانی خوبصورتی کے حامل ہوں گے جنہوں نے اس جہان رنگ و بو کو رقم کیا۔

بڑے بڑے سورما اور طرم خان خوبصورتی کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ،کیونکہ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔‘‘ رنگ بے جان چیزوں میں بھی زندگی ڈال دیتے ہیں۔ رنگولی کے تمام عکس اپنے دامن میں سمیٹے۔ انسان فطرتاً حسن پرست ہے۔ یہ اور بات ہے کہ حسن دیکھنے والوں کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ دلکشی کا کوئی ایک پیمانہ نہیں ہوتا۔ 

زیبائی کے کوہ ندا سے مختلف عکس ابھرتے رہتے ہیں۔ بارش کے قطروں کا ایک ادا سے زمین پر گرنا، انار کے دانوں میں رنگ کا اترنا، پرندے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ، بانجھ زمین سے اچانک پھوٹنے والے شگوفوں کی آہٹ، صبح دم کوئی مسکائی ہوئی کلی، پانی پر لہراتا ہوا چاند کا ریشمیں عکس، پھول پر تتلی کا رقص نو زائیدہ کی پہلی مسکراہٹ، آندھیوں میں چراغ کی لڑکھڑاتی سی شبیہہ اور بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 

تو بات جب ہوتی ہے شخصی جمال کی خواتین اپنی دلکشی کو لے کر بہت حساس ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں گورا رنگ جمالیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے جب کہ میں نے بہت سے گندمی رنگت کی حامل بے حد پرکشش خواتین بھی دیکھی ہیں۔ اب تو مرد حضرات بھی خود کو سجانے سنوارنے کے شائق نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ کھلنے والے مردانہ بیوٹی پارلرز اس کا ثبوت ہیں۔ جڑی بوٹیوں اور انسانی فطرت کا ہمیشہ سے ساتھ رہا ہے۔ 

روزمرہ کی بیماریوں سے لے کر خود کو سنوارنے، نکھارنے کی تراکیب ہمارے باورچی خانے اور باغ میں موجود ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بظاہر بے ضرر اور معمولی نظر آنے والی قدرت کی تخلیقات کس طرح ہم میں ایک نیا وجود جگاتی ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں مسور کی دھلی دال ایک چمچہ رات کو آدھے کپ دودھ میں بھگو دی جاتی تھی۔ صبح اس کو پیس کر چہرے پر لگایا جاتا تھا۔ منہ دھونے پر چہرہ خود بولتا تھا۔

مولی کا رس اور شہد چہرے کو بے انتہا تابنا کی بخشتا ہے ۔رنگت کو نکھارنے کے لیے لیموں کا رس، پانی کا زیادہ استعمال، نیند کا بہتر معیار، ہلدی، دہی، زیتون کا تیل، شہد، بیسن ٹماٹر کا رس، عرق گلاب، ابلے ہوئے آلو اور آنکھوں کے حلقے دور کرنے کے لیے کچا آلو، انڈے کی سفیدی یہ سب چیزیں قدرت نے ہمارے لیے پیدا کی ہیں۔ 

مشرقی گھرانوں میں شادی سے پہلے ہلدی ابٹن کی رسم اسی لیے رکھی جاتی ہے کہ دلہن پر روپ چڑھے۔ خوبصورت ہائڈریٹڈ جلد اندر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے لیے بہترین غذائیں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ہماری جلد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایپی ڈرمس، ڈرمس اور ہائپر ڈرمس۔ سب سے بیرونی تہہ یعنی ایپیڈرمس زیادہ تر مردہ خلیوں سے بنی ہوتی ہے۔ خشک، سفید یا پیلے رنگ میں ڈھل سکتی ہے۔ جلد کی دوسری تہہ یعنی ڈرمس میں تیل اور پانی کی کمی کی وجہ سے بیرونی جلد غیر صحت مند ہو سکتی ہے۔ 

خون کی نالیوں کی مدد سے جلد کی تینوں تہوں کو مطلوبہ خوراک پہنچائی جاسکتی ہے، جس کی وجہ سے جلد چمکدار اور تابناک نظر آتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہمارا رنگ مدھم ہو جاتا ہے۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ جلد خشک بے رونق اور پھیکی پھیکی سی ہو جاتی ہے۔ تیز دھوپ کی وجہ سے ہماری جلد کے خلیات یا میلانو سائٹس کی چکنائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

وٹامن سی ایک طاقتور اینٹی اکسیڈنٹ ہے جو سورج کی روشنی سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرتا ہے۔ یہ کالیجن کی تشکیل کے لیے بھی ایک ضروری جزو ہے۔ وٹامن سی ہمیں چکوترا، رس بھری، لیموں، کیوی اور کینوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ان پھلوں کو کھانا چاہیے اور چہرے پر ان کا رس بھی لگانا چاہیے۔ اسی طرح گاجر، شکرقندی، سویابین، جو کا دلیا، مچھلی، سیب، انجیر یہ تمام اشیاء ہماری رنگت کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ بیٹا کیروٹین، وٹامن اے کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔ 

لیموں میں موجود تیزابیت جلد کو گورا کرتی ہے۔ سویابین کا استعمال سفید جلد کے حصول میں بہت مدد دیتا ہے۔ دلیا پروٹین اور لیڈ سے بھرپور ہوتا ہے جو جلد کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس سے عمومی صحت بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ مچھلی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اور پروٹین جلد کی پرورش اور ہائیڈریشن کے لیے قدرتی تیل کے اخراج کی سطح کو برقرار رکھتے ہیں۔ سالمن پروٹین اور وٹامن ڈی کا بہترین ذریعہ ہے۔ سیب کا جوس جلد کے قدرتی پی ایچ توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

خوبصورتی عورت کا استحقاق ہے۔ اب صورتحال بالکل برعکس ہے۔ بیوٹی پارلرز کے نام پر نکھار بانٹنے کی دوڑنے معاشی طور پر گھروں کے بجٹ کو آؤٹ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف چہرے پر طرح طرح کی مصنوعات آزمائی جاتی ہیں جن میں کیمیکل کے نام پر حسن افزاء مادہ بھرا ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ کیمیکلی حسن دیرپا نہیں ہوتا۔ بار بار فیشل کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک غیر معمولی حقیقت حسن کے دوام میں غذا کا کردار بھی ہے۔ 

سل بٹے کے پسے مسالے، گھر کی تیار کردہ چٹنیاں، اچار، خالص دودھ پینے کی روٹین پھلوں کا باقاعدگی سے استعمال، لسی اور دہی کا روزانہ استعمال، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ قدرت کے خزانوں میں ہمارے لیے شفا ہی شفا، نکھار تازگی اور لازوال خوبصورتی کے اشارے پوشیدہ ہیں۔ اب تو حسن و زیبائش بےچارہ بیوٹی پارلرز، پزا، ڈونٹس، چکنالوجی کی بے شمار تراکیب کے گھوڑے پر سوار اندھا دھند بھاگا جا رہا ہے۔ آئیے لوٹ چلیں! اپنے اصل کی طرف اور قدرت سے پیار کریں، اس کو اپنائیں۔