• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ یوسف

عید وہ بادِ بہاری جو مردہ شاخوں میں جان ڈال دے۔ ہر سو غنچۂ نو دمیدہ کے جلوے دکھا دے۔ اداس ہونٹوں پر تبسم بکھر جائے تو مایوس دل نئی نئی انجمن آرائیوں کے حاشئے بن جائیں۔ ساری کائنات عید کے دن نیا پیرہن پہن لیتی ہے۔ شکستہ دلوں کی مرادیں بر آتی ہیں۔ یہ تہوار قدرت کی وہ عطائے خاص ہے کہ اس دن کوئی دامن خالی نہیں رہتا۔ 

سارا سال عید کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کو منانے کے انداز میں تبدیلیاں آرہی ہیں جو کہ اگرچہ خوش آئند اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں، مگر کہنہ روایات کی یاد دل میں کسک بن جاتی ہے ہر دور میں عید کے نقش بڑے دلفریب ہوتے ہیں۔ 

گئے وقتوں میں آخری روزے تک گھر کا کونا کونا اجال دیا جاتا تھا۔ نئے پردے، صوفہ کور، چاندیاں، باورچی خانے کا پرانا سامان نکال کر گھر کو نیا روپ دیا جاتا تھا۔ بڑی بوڑھیوں کے مشورے سے عید کے پکوان تیار کیے جاتے تھے۔ بیٹیوں کے گھروں پر عیدی دینے کا رواج بہت زیادہ تھا۔ بہوؤں کے میکے سے بھی عیدی آتی تھی۔ دامادوں کو بھی بڑے اہتمام سے عید دی جاتی تھی۔

روایات سے پیار کرنے والے گھرانوں میں گھروں پر دوپٹے رنگے جاتے تھے۔ ان پر گوٹا کناری ٹانکی جاتی تھی۔ مہندی کے پتے سل پر پیس کر ہاتھوں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے جاتے تھے۔ گھروں پہ پکوان بھجوانے کا اہتمام رمضان سے ہی شروع ہو جاتا تھا۔ عید کے دن سویوں کے مختلف ذائقوں والی سوغاتیں پڑوس میں بھجوائی جاتی تھیں۔ گھر کے بڑے بچوں کو عیدی دیتے تھے۔ دیدہ زیب عید کارڈز کا تبادلہ ہوتا تھا اور اب عید کا چاند نظر آتے ہی بازاروں میں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ 

اگرچہ مہندی کا شوق کسی دور میں بھی ماند نہیں پڑا، مگر اب مہندی کے ڈیزائنوں کے مختلف ٹیٹوز اور سٹیکرز آگئے ہیں۔ اپنی سہولت اور پسند کے مطابق ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی ہے۔ پہلے گھروں پر ہی خوبصورتی اور نکھار کے لیے ابٹن تیار کیا جاتا تھا۔ حُسنِ یوسف، صندل، گلاب کی خشک کلیاں، بیسن اور چمبیلی کے تیل کی خوشبو میں بسا اپٹن تیار کیا جاتا تھا۔ اب یہ کام بیوٹی پارلرز نے سنبھال لیا ہے۔ 

فارمولا کریمیں حسن کو دلکشی بخشتی ہیں۔ اب گھروں پر بھی پارلرز کی خدمت مہیا کی جاتی ہیں۔ روایتی کھانوں کی جگہ مختلف قسم کے پیزا، سینڈوچز، نگٹس، ہاٹ ونگزاور زنگر نے لے لی ہے ۔غرض یہ کہ مغربی اور اٹالین کھانوں کی ایک وسیع رینج ہے جو کہ نئی پود کو اپنا دیوانہ بنائے ہوئے ہے۔ 

ایک بات قابل ذکر ہے کہ پھولوں کے بغیر خوشی کا ہر تہوار ادھورا ہے۔ مہندی اور گلوں کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ گھروں پر زیادہ تر مختلف ڈیزائنوں کے روایتی لباس انگرکھا، پشواز، لہنگا، چوڑی دار پجاموں کے ساتھ کبھی لمبی اور کبھی مختصر شرٹس تیار کی جاتی تھیں، پھر آرگنزا کے دوپٹوں کے ساتھ میچنگ کے پجامے اور قمیضوں کا فیشن آیا اور اب فرشی شلواروں کے فیشن نے سب کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ 

مختلف موبائل کمپنیوں کی طرف سے عید کے خوبصورت پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔ اب عید کارڈز خریدنے کا جھنجھٹ ختم ہوا۔ ایک سیکنڈ میں آپ عید کی نیک خواہشات اپنے پیاروں کو پہنچا سکتے ہیں۔ اب فوٹو بنوانے کے لیے اسٹوڈیوز کا رخ بہت کم کیا جاتا ہے۔ اس کی جگہ اپنے موبائل فون سے ہر انداز کی سیلفیاں لی جاتی ہیں۔ ان کو سٹیٹس پر لگایا جاتا ہے گویا ہر ہر لمحہ یادگار بنا دیا جاتا ہے۔ فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں۔ 

ویڈیو کالز کے ذریعے اپنی موجودگی کے ہر لمحے کو قید کیا جاتا ہے۔ رمضان کے آخری دنوں میں بڑے بڑے ہوٹلوں میں عید ڈنرز کے لیے بکنگ کی جاتی ہے۔اب تو شب خیزیاں کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ 

عمومًا لوگ چاند رات کو مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد سو کر گزارتے ہیں۔ تحائف کو اِدھر سے اُدھر پہنچانے کی سہو لتیں بھی موجود ہیں۔ آن لائن چیزیں منگوانے کا رجحان دن بدن تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ زندگی مشینی ہوتی جا رہی ہے اور تہوار ڈیجیٹل۔

بقول شاعر… ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا