• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہمیں پہچان نہیں ملتی، ہم پہچان بناتے ہیں‘‘

آسیہ عمران

صبح کی نرم روشنی گاؤں کی خاموش فضا میں پھیل رہی تھی۔ زینب دھیرے دھیرے کچے راستے پر قدم رکھتی، ہر موڑ پر ایک نئے ارادے کے ساتھ گزر رہی تھی۔ برسوں تک وہ گلیوں میں سلائی مشین کی گھن گرج کے پیچھے چھپی رہی، مگر آج اُس کے اندر ایک عجیب سی چمک تھی جیسے کوئی چراغ دل میں جل رہا ہو۔ زینب نے اپنی زندگی کے بیشتر برس دوسروں کے لیے کام کرتے ہوئے گزارے۔

اُس کے ہاتھ میں ہنر تھا، مگر موقع نہیں۔ وہ برسوں گھر گھر جا کر کپڑوں کی سلائی کرتی رہی لیکن دل کے کسی کونے میں ہمیشہ یہ خلش رہی کہ ’’کاش میرا بھی کوئی اپنا کام ہو، میرا نام ہو، میری پہچان ہو۔‘‘ ایک روز جب اُس نے پرانے کپڑوں کے فالتو ٹکڑوں کو سمیٹا، تو دل میں ایک خیال جاگا۔ رنگ برنگے، الگ الگ ساخت کے ٹکڑے جیسے اس کی اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے خواب تھے۔ اُس نے ان ٹکڑوں سے خوبصورت کشن کورز تیار کیے۔ ان میں اُس کے ہنر کی خوشبو بھی تھی اور اُس کی کہانی کا عکس بھی، مگر صرف ہنر کافی نہیں تھا، اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری تھا۔ 

زینب نے اپنی چھوٹی بہن سے مدد لے کر سوشل میڈیا پر’’زینب ہینڈ میڈز‘‘ کے نام سے پیج بنایا۔ شروع میں تو ایسا لگا، جیسے دریا کنارے ایک کشتی کھڑی ہو اور بادباں حرکت نہ کرے، مگر پھر، اسے ایک آرڈر ملا۔ پہلا پیغام، پہلا اعتماد، پہلا قدم زینب کے لیے یہ اُس کے وجود کی تصدیق تھی۔ اُس نے سوچا، اگر وہ اکیلے کچھ کر سکتی ہے تو دوسروں کو ساتھ لے کر کتنا کچھ کیا جاسکتا ہے؟ اس نے محلے کی دو خواتین کو بلایا۔ ان میں بھی وہی ہنر تھا، بس راستے بند تھے۔ 

زینب نے انہیں کام کی تربیت دی اور سلائی کا سامان دے کر کہا، ’’اپنے وقت سے تیار کر کے لانا۔ یہ تمہارا اپنا وقت ہے، اپنی مرضی سے استعمال کرو۔‘‘یوں ہر دن کا ایک نظام بن گیا۔ صبح زینب کپڑوں کی کٹنگ کرتی، شام کو خواتین آکر تیار شدہ کورز واپس لاتیں۔ زینب خود کوالٹی چیک کرتی، انہیں صاف ستھری جگہ پر سجا کر تصویر لیتی، اور پھر اُن کی پیکنگ کرتی۔ کچھ ہفتوں بعد، کشن کورز کے بچ جانے والے کپڑوں کو دیکھ کر اُس کے ذہن میں ایک اور نیا خیال در آیا۔ وہ سوچنے لگی، ’’کیوں نہ ان سے کپڑے کے بیگ بنائے جائیں؟

ایسے بیگ جو بازار میں ملنے والی تھیلوں سے الگ ہوں، ان میں ہماری ثقافت کی خوشبو ہو۔‘‘ اس نے کچھ نمونے تیار کیے اور اسی پیج پر ’’زینب بیگز‘‘ کے نام سے لگائے۔یہ بیگز نہ صرف پائیدار تھے بلکہ دیدہ زیب بھی۔ صارفین کو یقیناً ان میں ہاتھ کا لمس اور ایک کہانی محسوس ہوتی۔ 

زینب نے ہر بیگ کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹیگ لگانا شروع کیا، جس پر لکھا ہوتا: ’’یہ بیگ ثریا کے ہاتھ سے بنا ہے، جس نے پہلی بار گھر کی دہلیز پار کیے بغیر اپنی آمدنی کمائی۔"اب اُس کی ٹیم میں سات خواتین تھیں۔ ہر جمعہ کو وہ زینب کے صحن میں جمع ہوتیں، چائے کے ساتھ خیالات بانٹتیں، نئے ڈیزائنز پر بات کرتیں، اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے مشورے دیتیں۔ 

زینب کے گھر کا وہ صحن اب صرف ایک جگہ نہیں رہا تھا، وہ ایک خوابوں کی ورکشاپ بن چکا تھا۔ ان خواتین کی آنکھوں میں اب صرف سلوٹیں نہیں، چمک بھی تھی۔ وہ بات کرتے کرتے ہنستی تھیں، مشورے دیتی تھیں، اور کبھی کبھی اپنی زندگی کے دکھ بھی بانٹ لیتی تھی جیسے زینب کا صحن صرف کام کی جگہ نہیں، ایک پناہ گاہ بن چکا تھا۔

ایک دن ایک بزرگ خاتون، رابعہ بی بی، جن کے ہاتھ کا اچار دور دور تک مشہور تھا، زینب کے پاس آئیں۔ بولیں، ’’بیٹی، اگر میرے اچار کو بھی کسی برتن میں بند کر کے بیچا جائے تو میرے لیے بھی کچھ آسانی ہو جائے گی۔‘‘زینب نے فوراً "زینب کچن" کے نام سے نیا شعبہ قائم کیا۔

اچار، چٹنیاں، دیسی چائے کے مسالے سب ہاتھ سے تیار ہوتے، صاف ستھرے جارز میں بند کیے جاتے، اور ہر بوتل پر اس خاتون کا نام درج ہوتا ،جس نے وہ چیز بنائی۔ لوگ ان ذائقوں کے ساتھ ان چہروں سے بھی جڑنے لگے جو ان کے پیچھے تھے۔زینب کا نظام اب منظم ہو چکا تھا۔ پہلے رجسٹر میں حساب رکھتی، پھر چھوٹے بھائی سے سیکھ کر گوگل شیٹس پر سارا ڈیٹا منتقل کیا۔ اب ہر خاتون کا کام، وقت اور ادائیگی محفوظ اور واضح تھی۔

وقت کے ساتھ بلکہ وقت نےزینب کویہ بھی سیکھایا کہ کاروبار صرف کمانے نہیں، اعتماد کا نام بھی ہے۔ جب عورت کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ خود سے کچھ کر سکتی ہے، تو وہ صرف خود کو نہیں، پوری نسل کو مضبوط کرتی ہے۔اب زینب کے تین پہچان بن چکی تھیں: زینب ہینڈ میڈززینب بیگز، زینب کچن لیکن یہ صرف برانڈ نہیں تھے، یہ تین راستے تھے خودداری، شراکت، اور خدمت کے۔زینب اب گاؤں کی لڑکیوں کو ورکشاپ میں سکھاتی ہے۔ 

اُس کی باتیں سادہ ہوتی ہیں مگر اثر رکھتی ہیں۔ وہ اکثر کہتی ہے، ’’ہمیں پہچان نہیں ملتی، ہم پہچان بناتے ہیں۔‘‘ اُس کے صحن کی دیوار پر ایک جملہ لکھا ہے: ’’جب عورت اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے، تو پورا خاندان سنبھل جاتا ہے۔‘‘ اور اُس صحن میں، جہاں کبھی صرف خاموشی گونجتی تھی، اب خواب سلتے ہیں، رنگ چنتے ہیں اور روشنیاں بنتے ہیں۔ زینب کا سفر مکمل نہیں ہوا، کیونکہ وہ جانتی ہےکہ اصل سفر تو تب شروع ہوتا ہے جب ایک عورت دوسرے کا ہاتھ تھامتی ہے۔