• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ماں‘‘ اس تین حرفی لفظ میں کیا جادو ہے کہ دنیا کی ساری خوبصورتی چمک روشنی اور مسکراہٹ اس میں سمٹ آئی ہے۔ ماں تو محبت روشنی، زندگی اور امید کا استعار ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی اعلیٰ ترین شے جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھ کر اسے محترم بنادیا۔ ماں قدرت کا بے مثل حسین ترین شاہکار کتنا اچھا محسوس ہوتا ہے سب پڑھ کر اور سن کر۔ ہر عورت ہر ماں اپنے اندر ایک مسرت ایک خوشی اور فخر محسوس کرنے لگتی ہے۔

بلاشبہ عورت اشرف المخلوقات میں اشرف ترین ہے، کیوںکہ اللہ پاک نے اپنی تخلیق کو دنیا میں لانے کے لیے اس کا انتخاب کیا ہے، مگر اس خوبصورت تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ کیا اس عورت اس ماں کی بنیادی صحّت کا خیال رکھاجا رہا ہے۔ کیا وہ ذہنی جسمانی، روحانی اور سماجی طور پر صحت مند ہے۔ 

کیا ہمارے معاشرے میں جہاں غربت ناخواندگی اور فرسودہ رسم و رواج عام ہیں۔ جہاں عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے وہاں ایک عورت ماں بننے کیلئے کن مشکلات اور کِن تکلیف دہ مراحل سے گذرتی ہے۔ ہمیں تو اولاد اللہ کی نعمت یا رحمت نظر آتی ہے جیسے دیکھ کر ہر آنکھ مسکرا اُٹھتی ہے، مگر حمل اور زچگی ناقابلِ تصور اذیت اور دکھ کی داستان ہے۔ وہ اذیتیں ایک عام انسان سن ہی نہیں سکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ حمل اور زچگی ایک فطری عمل ہے، مگر وطنِ عزیز میں  جہاں آبادی بڑھنے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔

وہیں حمل اور زچگی کے دوران ماؤں کے مرنے کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کا تناسب سے زیادہ ہے۔ یہاں میٹرنل مورٹیلٹی ریشو 1 6 MMRہے، جبکہ ملائشیا میں یہ تعداد 8 ہے۔ ایک لاکھ میں 298 عورتیں زچگی کے دوران فوت ہوجاتی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں قریباً 665 بچے روزانہ مردہ پیدا ہوتے ہیں۔ 

مردہ بچہ بھی تو ایک ماں کےلیے موت ہی ہے۔ زندہ ماں اپنے اندر ہی مرجاتی ہے۔ تصور کریں وہ عورتیں جنہوں نے چمکتی آنکھوں سے ماں بننے کا خواب دیکھا،مگر اسپتال جانے تک انکی آنکھوں کی چمک ختم ہوچکی تھی اور وہ مرچکی تھیں۔وہ عورت جو اپنے گھر سے ایک زندہ ہنستے کھیلتے وجود کو جنم دینے کے لیے چلی تھی، مگر اس کی خواہش حسرت بن گئی کہ اس نے مردہ بچے کو جنم دیا۔

وہ عورتیں جو بے بسی سے اپنی زندگی کو لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے دیکھ رہی تھیں۔ جن کی بکھرتی سانسوں میں موت کا خوف اور زندگی کی خواہش تھی۔ وہ عورتیں جو اپنے باپ بھائی اور شوہر کی منتظر تھیں ،تاکہ انہیں اسپتال لے جایا جاسکے اور انہیں بہتر طبعی امداد مل سکے، مگر ایسا نا ہو سکا۔

وہ عورتیں جو خون کی کمی کا شدید شکار تھیں اور زیادہ خون ضائع ہوجانے سے فوت ہوگئیں۔ وہ عورتیں جو بیمار کمزور اور ناکافی غذائیت کا شکار تھیں، پھر بھی حاملہ تھیں۔ زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرگئیں، سادہ گم نامی سے بے حیثیت عورتیں، وجوہات پر غور کریں تو پھر وہی غربت، تعلیم ، شعور اور آگہی کے دوران عورت کو بنیادی آسانیوں آرام ، خوراک اور بعد از زچگی دیکھ بھال سے محروم رکھا جاتا ہے۔

گھر کی بڑی بوڑھیاں آرام کو منع کرتی ہیں کہ بچہ نارمل پیدا نہیں ہوگا بلکہ تکلیف کے باوجود حاملہ سے گھر میں جھاڑو اور پونچھا لگواتی ہیں، کھانے کو کم خوراک اس لیے دی جاتی ہے کہ بچہ صحت مند ہوا تو نارمل ڈیلوری کے بجائے آپریشن سے زچگی ہوگی۔ ڈاکٹر سے معائنہ یا اسپتال جانے کو منع کیا جاتا ہے کہ تم کونسی انوکھی عورت ہو ہم نے بھی تو دس دس بچے گھر میں ہی پیدا کئے ہیں۔

عورت کا سانس پھولنے لگے یا ہاتھوں پیروں پر سوجن آجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نارمل بات ہے۔ ان ہی نخروں کی وجہ سے آپریشن کرانا چاہتی ہو۔ عورت اگر پہلے ایک بیٹی کی ماں ہو تو شدید ذہنی دباؤ میں ہوتی ہے، کیوںکہ یہاں پہلی بیٹی بدقسمتی دوسری بیٹی تباہی اور تیسری بیٹی قیامت سمجھی جاتی ہے، اسے طلاق کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں۔

بچے کب اور کتنے ہوں گے، یہ فیصلہ عورت کے اختیار میں نہیں، بلکہ خاوند یا سسرال کا فیصلہ ہوتا ہے، جس سے عورت کی صحت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔زیادہ تر عورتیں اسپتال کے بجائے گھر میں نا تجربہ کارکے ہاتھوں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ پیدائش کا دورانیہ بہت زیادہ ہوجانے پر بچہ رحم مادر میں ہی گھٹ کر مرجاتا ہے۔ بہت حالت خراب ہونے پر جب عورت کو گھر والے اسپتال لے کر آتے ہیں تو کبھی ماں اور کبھی ماں اور بچہ دونوں سے زندگی روٹھ چکی ہوتی ہے۔ 

کیا یہ ہماری ناکامی نہیں ہوگی کہ ان بے شمار عورتوں کی خاموش چیخیں ناسن سکیں۔جو حمل اور زچگی کے دوران تکالیف اُٹھانے کے باوجود خالی گود اداسی اور دکھ کے ساتھ اپنا ہردن گزارتی ہیں۔ ایسا کوئی پیمانہ ہی نہیں، جس سے عورتوں کی زندگی میں درد، خوف، اذیت ناک زخموں تحقیر اور پریشانی کو ناپا جاسکے۔ ہم سب کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے کہ ایک عورت کو ماں کا رتبہ حاصل کرنے کے لیے جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ان تکالیف میں کمی کے لیے سہولت کار بنیں۔ زچگی اور حمل کے دوران خطرات جب ہی کم ہوسکتے ہیں ،جب عورتیں زیادہ صحت مند، باشعور اور تعلیم یافتہ ہوں گی۔ اسپتال میں معائنہ، غذا اور دوا، اسپتال میں زچگی، زچگی کے بعد معائنہ اور زچگی کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحّت کی حفاظت ہی صحت مند ماؤں کی زندگی کی ضمانت ہے۔

ماؤں کے ساتھ ساتھ کل کی ماؤں یعنی بچیوں کی صحت کا خیال بھی بہت ضروری ہے۔ مصنف آلڈس لیونارڈہکسلے نے انسانی دکھ کے بارے میں لکھا تھا۔ تکلیف اور خوف کی چیخیں فضا میں گیارہ سوفٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔

تین سیکنڈ تک سفر کرنے کے بعد وہ سماعت کے قابل نہیں رہتیں۔ شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان چیخوں کو سماعت کے قابل بنایا جائے۔ آئیں آج کل اور مستقبل کی ماؤں کی حفاظت کریں۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور مسکراہٹ کو ماند نہ پڑنے دیں۔