سویوں کے دیسی گھی میں بھننے کی خوشبو سے سارا گھر مہک رہاتھا۔ ایسے میں گھر میں ایک خوشگوار سی ہلچل مچی ہوئی تھی ، کوئی نہانے کے انتظار میں غسل خانے کے باہر چکر لگا رہا تھا، کوئی رومال ڈھونڈ رہا تھا ،کسی کو اچھے عطر کی تلاش تھی، کیوںکہ عید کی نماز میں کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ فریال پھرکی کی طرح سارے گھر میں گھوم گھوم کر نڈھال ہوئی جارہی تھی کبھی میاں جی کی آواز پڑتی تھی کبھی بچے مما مما پکارنے لگتے اور وہ سب کو جلدی جلدی نمٹاتی ہوئی باورچی خانے میں بھی جھانک آتی جہاں اس کی ساس امی اپنا روایتی مزیدار سا شیر خورمہ تیار کر رہی تھیں جو ان کی خاص ڈش تھا، ان کا یہ شیر خورمہ سارے خاندان میں مشہور تھا عید پر دور دور سے خاندان والے ان کا یہ میٹھا کھانے ان کے گھر آتے تھے۔
فریال کی ساس کو یہ میٹھا ان کی بھی ساس نے سکھایا تھا، جس میں سویاں کم اور میوہ جات زیادہ ہوتے تھے اور اسے دھیمی آنچ پر کئی گھنٹے پکایا جاتا تھا، دھیمی آنچ پر پکتے پکتے دودھ خوب عمدہ گاڑھا اور لذیذ ہوجاتا تھا اس میں ربڑی جیسا ذائقہ آجاتا تھا، پھر اس میں میووں کی بہار چار چاند لگادیتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ عید پر سارے پکوان فریال تیار کرتی تھی لیکن یہ روایتی میٹھا اس کی ساس ہی بناتی تھیں۔ فریال کے میاں جی کو بھی عید پر شیرخورمہ اپنی امی کے ہاتھ کا ہی چاہیے ہوتا تھا، شادی کے شروع میں فریال نے کوشش کی کہ وہ یہ بنائے اور ساس کو تکلیف نہ دے لیکن اس کے میاں نے یہ کہہ کر اس کو منع کر دیا کہ’’ اگر امی کی یہ چھوٹی سی خوشی بھی ان سے چھین لی گئی تو وہ اپنے آپ کو بیکار محسوس کریں گی اس لئے ان کو یہ احساس ہونے دو کہ ان کا وجود ہم سب کے لئے کتنا اہم ہے اور اگر وہ یہ میٹھا عید کی صبح ہمارے لئے نہیں بنائیں گی تو ہماری یہ میٹھی عید پھیکی رہ جائے گی اور ہماری خوشیاں ادھوری رہ جائیں گی“ اپنے میاں کی اس بات سے فریال کو بھی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ہمارے بزرگوں کے لئے ہماری دی گئی چھوٹی سی اہمیت اور خوشی بھی کس قدر اہم ہوتی ہے، اور خاص کر ماؤں کو جب بڑا سمجھ کر بہو بیٹا ان کی باتوں اور مشوروں کو دھیان سے سنیں تو مائیں دوبارہ سے جی اٹھتی ہیں۔
اس کے گھر میں بھی برسوں سے یہ روایت تھی کہ اس کی امی صبح سویرے میٹھے کے ساتھ ساتھ پوری ترکاری بھی بناتی تھیں اور سب کو گرما گرم کھلاتی تھیں اور خود سب سے آ خر میں کھاتی تھیں۔اگرچہ اب اس کام میں وہ تھک جاتی تھیں لیکن اس سے ان کو جو خوشی ملتی تھی وہ ان کے چہرے سے جھلکتی تھی۔
عید خوشیوں کا نام ہے، رب کی طرف سے ہم سب کے لئے انعام ہے، ایسے میں جب ہم سب اپنی زندگی میں بہت زیادہ مصروف ہیں ہمارے بزرگ اپنی ذات میں بہت تنہا ہوگئے ہیں، انہیں اپنا آپ بیکار لگنے لگتا ہے، کیوںکہ عموماً اس عمر میں آکر جب والدین بچوں سے کوئی بات کرنا چاہیں یا کچھ سمجھانے کی کوشش کریں تو بچوں کا جواب ہوتا ہے کہ ’’آپ کو کیا پتہ اب ایسا نہیں ہوتا ، یا یہ کہ اب دنیا بہت آگے نکل گئی ہے اب یہ آپ کا دور نہیں ہے۔‘‘ یہ جملے ماں یا باپ کے لئے کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں یہ اولاد سمجھ ہی نہیں سکتی۔
ہمیں یاد ہے کہ پہلے جب کسی کی شادی بیاہ یا کوئی تہوار ہوتا تھا تو خاندان کے بزرگوں کو سب سے پہلے گھر بلا لیا جاتا تھا کہ سب کام ان کے تجربے کی روشنی میں کیا جائے، ہر کام میں ان کا مشورہ لیا جاتا تھا کھانا پکانے سے لے کر تقریب کے انعقاد تک ہر کام ان کے مشوروں اور ہدایات کی روشنی میں ہی کیا جاتا تھا اور یہ خاندان کے بزرگ بڑے رعب سے سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے تھے، پیار بھی کرتے تھے اور ہر تقریب میں پیش پیش بھی رہتے تھے۔ اب تو تقریبات میں کوشش کی جاتی ہے کہ بزرگوں کو یا تو بلایا نہ جائے یا سب سے آخر میں بلایا جائے ورنہ وہ خوامخواہ’’ پنگے‘‘کریں گے۔
جب سے خاندانوں میں بزرگوں کی اہمیت کو صفر کیا گیا ہے اس وقت سے معاملات میں بگاڑ بڑھ گیا ہے چاہے وہ بچوں کی تربیت کا معاملہ ہو، چاہے شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا میاں بیوی کے تعلقات ہوں، پہلے یہ بزرگ بچوں کو بھی کنٹرول میں رکھتے تھے مجال ہے کہ کوئی بچہ اپنے بڑوں سے تیز لہجے یا بدتمیزی سے بات کرنے کی جرات کرے وہیں ان کو ڈانٹ دیا جاتا تھا یا دادا دادی نانا نانی کا ڈراوا دیا جاتا تھا کہ ان سے شکایت کردی جائے گی اور بچے وہیں دبک جاتے تھے۔ اور آج کے بچے الامان و الحفیظ۔
ان کے ماں باپ ان سے ڈرتے ہیں کہ کہیں بچوں کو کچھ برا نہ لگ جائے۔ یہ نہیں کہتے کہ زمانے کے ساتھ نہ چلیں لیکن زمانے کے ساتھ چلنے میں اپنے خاندان کے بزرگوں کو نہ بھولیں ان کی اہمیت کو اپنے بیوی بچوں کی نظر میں کم نہ کریں۔ انہیں یہ احساس نہ دلائیں کہ وہ گھر میں بیکار ہیں۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ ان کے بغیر آپ کچھ نہیں۔
عید ہو یا بقرعید ان تہواروں پر اپنے خاندان کے ان بزرگوں کے پاس ضرور جائیں جن کے پاس جانے کا آپ کو کم ٹائم ملتا ہے، عید کے دن کو سو کر یا چھٹی کا دن سمجھ کر نہ گزاریں بلکہ ان سب رشتے داروں کے ہاں جائیں جن کے گھر روزمرہ میں جانا مشکل ہوتا ہے اور خاص کر ایسے رشتے داروں کا ہاں ضرور جائیں جنہیں آپ کی ضرورت ہے۔ہمیں یاد ہے کہ ہمارے امی ابا عید کے دن سویرے سے ہی سب رشتہ داروں کے ہاں کا پلان بنالیتے تھے کہ کس کس کے ہاں جانا ہے اور پہلے ان کے ہاں چکر لگانا ہے جو ضرورت مند ہیں یا غریب ہیں اور چاند رات کو ہی سارے خاندان کے بچوں بڑوں بہوؤں دامادوں کے لفافے بن جاتے تھے اور ضرورت مند رشتے داروں کے الگ خاص بھاری بھرکم لفافے تیار کیے جاتے تھے، تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ساتھ میں امی شیر خورمہ اور دوسری چیزیں بھی تیار کر لیتی تھیں اور اسٹیل یا تام چینی کے ناشتے دان میں یہ سب چیزیں رکھ کر ساتھ لے جاتے تھے اور پھر سب کے ساتھ مل کر کھاتے تھے، اس عید کا لطف آج تک یاد ہے۔
لیکن سب سے پہلے خاندان میں جو سب سے بزرگ ہوتے تھے اور ان کے ہاں جاکر سلام کیا جاتا تھا اور ان کے پاندان سے نئے کڑکڑاتے نوٹ جو کہ اگر چہ کم مالیت کے ہوتے تھے لیکن ان پیارے پیارے دادا، دادی اور نانا، نانیوں کے خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ وصول کرنا اور جھک کر آ داب کر نا آ ج بھی یاد ہے۔ اب تو سب کے گھروں میں ایک سا حال ہے نوجوان سب رات بھر جاگتے ہیں صبح عید کی نماز ادا کی اور بستروں میں غائب ہوجاتے ہیں۔
مردوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے ان کو بھی یہ دن چھٹی کے طور پر منانا اچھا لگتا ہے۔ کوئی کسی کے ہاں جانا پسند نہیں کرتا۔ سب صبح تیار ہوتے ہیں سیلفیاں لیتے ہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں ۔ اور خاندان کے بڑے بوڑھے انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ کوئی ان سے ملنے آئے۔
اس عید اپنے معمول میں تبدیلی لائیں اپنے ان تمام رشتہ داروں سے ملنے جائیں یا ان کو اپنے گھر بلائیں جن سے بہت عرصے سے نہیں ملے، اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھیں کچھ ان کی سنیں کچھ اپنی سنائیں، ان کے ساتھ ہنسیں بولیں ان کے زمانے کی باتیں کریں ، یقین جانیں آپ کا یہ چھوٹا سا عمل بہت سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور خوشی کا باعث بن جائے گا۔
سو سو کر تو بہت عیدیں گزار لیں اب کچھ نیا کریں پرانی روایتوں کو زندہ کریں ،جس میں عید کا دن ملنے ملانے اور دوسروں سے خوشیاں بانٹنے کا دن ہوتا تھا صرف فیس بک ، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر عید نہ منائیں اپنے حقیقی اپنوں کا ہاتھ تھامیں، پھر دیکھیے گا یہ عید کتنی حسین ہو جائے گی۔ اور ہاں اس عید پر اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو ہرگز نہ بھولیے گا، ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
پیشگی عید مبارک